1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا واقعی سرحديں کُھل سکتی ہيں؟

عاصم سليم27 مارچ 2016

يونان اور مقدونيہ کی سرحد کھلنے کے حوالے سے افواہوں کے بعد اتوار کی صبح سينکڑوں پناہ گزينوں نے دوبارہ اڈومينی کا رخ کيا تاہم ان کی اميدوں پر اس وقت پانی پھر گيا جب يونانی پوليس نے اعلان کيا کہ سرحد يقيناً بند ہی رہے گی۔

https://p.dw.com/p/1IKXI
تصویر: Reuters/M.Djurica

خبر رساں ادارے اے ايف پی کی شمالی يونان کے شہر اڈومينی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اتوار کے روز تقريباً ڈھائی سو تارکين وطن يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ريلوے ٹريک اور باڑ کے قريب پہنچ کر مظاہرہ کرنا شروع ہو گئے۔ مہاجرين نے بينرز اٹھا رکھے تھے، جن پر لکھا ہوا تھا، ’’کوئی تشدد نہيں، ہم صرف سرحد پار کرنا چاہتے ہيں۔‘‘ ايک اور بينر پر مندرجہ ذيل الفاظ درج تھے: ’’آزادانہ نقل و حرکت ہر کسی کا حق ہے۔‘‘ کسی ممکنہ نا خوش گوار واقعے سے نمٹنے کے ليے يونان کی پوليس کے پچاس اہل کار موقع پر موجود تھے تاہم يہ مظاہرہ پُر امن رہا۔

يہ پيش رفت ايسی افواہوں کے بعد ہوئی کہ سرحد کھل جائے گی۔ ايک نوجوان شامی پناہ گزين نے ايتھنز نيوز ايجنسی کو بتايا کہ ايسی افواہيں گردش کر رہی تھيں کہ بين الاقوامی صحافی اور ريڈ کراس کے رضا کار باڑ توڑ کر مقدونيہ ميں داخل ہونے ميں پناہ گزينوں کی مدد کريں گے۔ اِس پناہ گزين نے يہ نہيں بتايا کہ اُس نے يہ بات کہاں سے سنی تھی۔ ايک اور پناہ گزين کے بقول جرمنی ميں مقيم اُس کی بہن نے بھی انٹرنيٹ پر يہی بات پڑھ کر اڈومينی ميں پھنسے اپنے بھائی کو مطلع کيا تھا۔

تقريباً ڈھائی سو تارکين وطن يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ريلوے ٹريک اور باڑ کے قريب پہنچ کر مظاہرہ کرنا شروع ہو گئے
تقريباً ڈھائی سو تارکين وطن يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ريلوے ٹريک اور باڑ کے قريب پہنچ کر مظاہرہ کرنا شروع ہو گئےتصویر: Reuters/M.Djurica

پناہ گزينوں کے بحران سے نمٹنے والی يونانی ايجنسی SOMP کے مطابق مہاجرين کو معلومات فراہم کرنے کے ليے جاری مہم ميں بہتری لائی جا رہی ہے تاہم چند لوگ نا معلوم وجوہات کی بناء پر تارکين وطن کو جھوٹی اميديں دے رہے ہيں۔ بعد ازاں پوليس اہل کاروں نے لاؤڈ اسپيکروں پر اعلان کيا کہ سرحد بند ہی رہے گی۔

قريب دو ہفتے قبل سينکڑوں پناہ گزين ايک دريا پار کر کے مقدونيہ ميں داخل ہو گئے تھے تاہم انہيں فوجی دستوں نے پکڑ کر واپس يونان بھيج ديا تھا۔ اس دوران تين افغان مہاجرين اور ايک حاملہ عورت دريا ميں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔ واقعے کے بعد مقدونيہ کے صدر کے ايک نمائندے نے اس بارے ميں بيان جاری کيا تھا کہ بلقان ممالک سے گزرنے والے روٹ کو ہر گز کھلنے نہيں ديا جائے گا۔ بلقان خطے کی رياستوں کی جانب سے سرحديں بند کر ديے جانے کے نتيجے ميں اڈومينی ميں قائم مہاجر کيمپ ميں تقريباً پچاس ہزار تارکين وطن پھنسے ہوئے ہيں۔

دريں اثناء گزشتہ ہفتے کے اختتام پر جمعے اور ہفتے سے يونانی حکام نے اڈومينی سے مہاجرين کو ديگر مقامات پر منتقل کرنے کا کام شروع کر ديا ہے۔ گيارہ بسوں ميں تقريباً چھ سو تارکين وطن کو ديگر کيمپوں ميں منتقل کيا جا چکا ہے ليکن کچھ لوگ ابھی بھی پر اميد ہيں کہ کوئی راہ نکلے گی۔