1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا انسانوں کے اسمگلر کسی نئے راستے کی تلاش ميں ہيں؟

عاصم سليم28 فروری 2016

بحيرہ روم کے ذريعے انسانی اسمگلنگ ميں ملوث گروہ لوگوں کو غير قانونی طريقوں سے يورپ پہنچانے کے ليے اِن دنوں مصر کے راستے کسی نئے روٹ کی تلاش ميں ہيں۔ يورپی يونين کو خدشہ ہے کہ اِس راستے سے شدت پسند بھی يورپ پہنچ سکتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/1I3kM
تصویر: picture-alliance/Arved Gintenreiter

خبر رساں ادارے روئٹرز کی برسلز سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق انسانوں کی اسمگلنگ کے انسداد کے ليے ليبيا اور ترکی ميں جاری حاليہ کوششوں کے تناظر ميں بحيرہ روم کے خطے ميں سرگرم گروہ اِن دنوں مصر کے راستے کسی نئے روٹ کی تلاش ميں ہيں۔ مصر کے دوسرے سب سے بڑے شہر اسکندريہ ميں انسانوں کی اسمگلنگ ميں ملوث گروہ پچھلے دنوں سے کچھ زيادہ فعال ہو گئے ہيں۔ يورپی يونين کے ايک اہل کار نے اِسے ايک ’’بگڑتا ہوا مسئلہ‘‘ قرار ديتے ہوئے اِن خدشات کا اظہار کيا کہ مصر کے سينائی خطے ميں سرگرم اسلام پسند اِس روٹ کے ذريعے يورپ ميں اٹلی يا يونان پہنچ سکتے ہيں۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس ايک ملين سے زائد تارکين وطن سياسی پناہ کی غرض سے يورپی بر اعظم پہنچے، جن ميں سے تقريباً اسی فيصد ترکی کے راستے يونان پہنچے جب کہ بقيہ ليبيا سے اٹلی تک پہنچے۔ مصر سے يورپ پہنچنے والوں کے بارے ميں اعداد و شمار دستياب نہيں۔ يورپی حکام کا کہنا ہے کہ ليبيا کی صورت حال ميں ابتری کے نتيجے ميں اسمگلروں کی کوشش ہے کہ افريقی اور مشرق وسطٰی سے تعلق رکھنے والے پناہ گزينوں کو مصری ساحلوں تک پہنچايا جائے۔ اگرچہ مصر سے يورپ تک پہنچنے کا راستہ مقابلتاً طويل ہے تاہم اسمگلر اِس بھروسے تارکين وطن کو مصر سے لے جاتے ہيں کہ بين الاقوامی سمندری حدود ميں پہنچتے ہی اُنہيں بچا ليا جائے گا۔

گزشتہ برس ايک ملين سے زائد تارکين وطن سياسی پناہ کی غرض سے يورپی بر اعظم پہنچے، جن ميں سے تقريباً اسی فيصد ترکی کے راستے يونان پہنچے
گزشتہ برس ايک ملين سے زائد تارکين وطن سياسی پناہ کی غرض سے يورپی بر اعظم پہنچے، جن ميں سے تقريباً اسی فيصد ترکی کے راستے يونان پہنچےتصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Palacios

برسلز میں حکام اِن دنوں ترک حکومت کے ساتھ يہ بحث جاری رکھے ہوئے ہيں کہ ترکی سے مہاجرين کی غير قانونی طريقوں سے يورپ ہجرت کو کس طرح روکا يا محدود کيا جائے۔ ايسے ميں يورپی حکام اِس بارے ميں تشويش کا شکار ہيں کہ مصری حکومت انسانی اسمگلروں کے خلاف مناسب کارروائی نہيں کر رہی۔ چوں کہ مصر ايک شورش زدہ خطے ميں ايک اہم اتحادی ملک ہے، يورپی حکام امدادی اور تجارتی روابط کو بروئے کار لاتے ہوئے مصر پر دباؤ نہيں ڈالنا چاہتے۔

ايک اور يورپی اہل کار نے کہا، ’’ہميں اِس بات کی فکر ہے کہ اسمگلروں اور مہاجرين کے درميان سينائی ميں القاعدہ يا پھر داعش سے تعلق رکھنے والے جنگ جو بھی يورپ کا رخ کر سکتے ہيں۔‘‘ اُن کے بقول اگرچہ مصر ميں عموماً کنٹرول زيادہ سخت ہوتا ہے تاہم بعض اوقات حکام پناہ گزينوں کی کسی اور ملک منتقلی ممکن بنانے کے ليے اپنی آنکھيں بنی بھی کر ليتے ہيں۔ ايک مصری سکيورٹی اہل کار نے روئٹرز کو بتايا کہ حکومت آج کل ديگر مسائل ميں گھری ہوئی ہے۔