1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Wahl Köhler

بیٹینا مارکس/ امجد علی/ احمد ولی اچکزئی24 مئی 2009

ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں اب تک کے صدر ہورسٹ کوہلر کو ایک بار پھر ملک کا سربراہِ مملکت منتخب کر لیا گیا۔ اِس طرح کوہلر اگلے پانچ برسوں میں ایک بار پھر وفاقی جمہوریہء جرمنی کی نمائندگی کریں گے۔

https://p.dw.com/p/HwJI
ہورسٹ کوہلر اپنے دوبارہ انتخاب کے روزتصویر: picture alliance/dpa

کوہلر زیادہ بڑے فرق سے تو نہیں جیتے لیکن یہ فرق نمایاں بہرحال تھا۔ اُنہیں منتخب کرتے ہوئے وفاقی اسمبلی نے جرمن عوام کی ایک بڑی اکثریت کی خواہش کا احترام کیا۔ وہ اِس لئے کہ کوہلر، جنہیں پانچ سال پہلے وفاقی صدر بنتے وقت زیادہ تر لوگ جانتے بھی نہیں تھے، آج کل جرمن عوام میں بہت زیادہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ اگر سربراہِ مملکت کا انتخاب جرمن شہریوں کو براہِ راست کرنا ہوتا تو رائے عامہ کے زیادہ تر جائزوں کی روشنی میں یہ یقینی بات تھی کہ اکثریت ہورسٹ کوہلر ہی کو اپنا ووٹ دیتی۔ ایسے جائزوں کے ستر فیصد شرکاء نے کہا کہ وہ اِس مقبول صدر کی دوسری مدتِ صدارت کے خواہاں ہیں۔

اِس کے برعکس رائے عامہ کے جائزوں کے محض پندرہ فیصد شرکاء نے خاتون سوشل ڈیموکریٹ اُمیدوار برائے صدارت گیزینے شوان کے حق میں رائے دی تھی۔ وفاقی اسمبلی میں بھی وہ اکثریت کو اپنے حق میں رائے دینے کے لئے قائل نہ کر سکیں۔ اور تو اور خود اُن کے اپنے ریڈ گرین حامیوں کے بھی تمام ووٹ اُن کے حصے میں نہیں آئے۔ ریڈ گرین کیمپ یعنی سوشل ڈیموکریٹس اور گرینز کے مجموعی ووٹوں میں سے گیارہ ووٹ سیاسیاست کے شعبے کی اِس پروفیسر کو نہیں ملے۔

سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے سربراہ فرانس منٹر فیئرنگ نے انتخابی مرحلے کے بعد اِس امر کی تردید کی کہ یہ انتخابی نتائج ستائیس ستمبر کو مجوزہ پارلیمانی انتخابات کے ممکنہ نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور فری ڈیموکریٹک پارٹی نے آپس میں یک جہتی کا مظاہرہ کیا، جس کی اُنہیں، اگر وہ ایک بار پھر مل کر حکومت بنانا چاہتی ہیں، تو ضرورت بھی ہے۔ اِس کے برعکس سوشل ڈیموکریٹس اور گرینز ایک بار پھر عدم اتفاق اور انتشار کا شکار نظر آئے، حالانکہ کوشش اُن کی بھی یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد مل کر حکومت بنائیں۔ اِس انتخابی مرحلے سے پہلے ہی نظر آ رہا تھا کہ سوشل ڈیموکریٹس گیزینے شوان کی اُس قدر حمایت نہیں کر رہے، جس کی کہ ضرورت ہے۔ سرکردہ سوشل ڈیموکریٹس نے لا تعلقی بلکہ عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔

Deutschland SPD schlägt Gesine Schawn als Bundespräsidentin vor
ایس پی ڈی کی صدارتی اُمیدوار گیزینے شوانتصویر: AP

انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد پارٹی قائد فرانس منٹرفیئرنگ نے شوان کی شکست کا ذمہ دار لیفٹ پارٹی کو قرار دینے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اِس پارٹی نے الگ راہیں اختیار کر لی تھیں۔ مزید کہا گیا کہ ایس پی ڈی کی اُمیدوار کی حمایت کرنے کی بجائے لیفٹ پارٹی نے اپنا ایک ایسا اُمیدوار کھڑا کر دیا، جس کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔

سچ لیکن یہ ہے کہ ایس پی ڈی کی اُمیدوار کی شکست میں قصور لیفٹ پارٹی کا نہیں بلکہ خود سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا تھا، جس نے ایک بار بھی لیفٹ پارٹی سے اپنی حمایت کرنے کے لئے نہیں کہا۔ ظاہر ہے وہ جرمن عوام کو یہ اشارہ نہیں دینا چاہتی تھی کہ ستمبر کے پارلیمانی انتخابات کے بعد وہ گرینز کے ساتھ ساتھ لیفٹ پارٹی کو بھی ساتھ ملا کر حکومت بنانا چاہتی ہے۔ ایس پی ڈی کا لیفٹ پارٹی کو کھلے عام نظر انداز کرنے کے بعد اُس سے یہ توقع رکھنا انتہا درجے کی سادگی بلکہ ڈھٹائی ہے کہ وہ پھر بھی چپکے سے سوشل ڈیموکریٹ اُمیدوار کی حمایت کر دے گی۔

بہرحال انتخاب ہو چکا۔ گو جرمنی نے صدر کے عہدے پر پہلی مرتبہ ایک خاتون کو منتخب کرنے کا موقع گنوا دیا ہے، جو بلا شبہ ایک اچھی صدر بھی ثابت ہوتیں لیکن جرمنی نے بہرحال ایک اچھے صدر کو دوبارہ منتخب بھی کر لیا ہے۔ کوہلر ایک مقبول اور عوام سے قریب رہنے والے ایک ایسے رہنما ہیں، جو سادہ لیکن فیصلہ کن انداز میں ملک کے اندر اور باہر جرمنی کی نمائندگی کریں گے۔