1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوپن ہیگن میں امیر ممالک نے مایوس کیا: بھارت

21 دسمبر 2009

بھارت نے کوپن ہیگن کانفرنس پر تبصرہ کر تے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ملکوں کے طرز عمل سے سب کو مایوسی ہوئی۔ ’’اب سب کی نگاہیں میکسیکو میں آئندہ سال ہونے والی کانفرنس پر مرکوز ہوگئی ہیں۔‘‘

https://p.dw.com/p/LA9P
کوپن ہیگن اجلاس کے موقع پر مظاہریں احتجاج کے دورانتصویر: AP

بھارت کے سابقہ سیکریٹری خارجہ اور ماحولیات کے متعلق وزیر اعظم کے خصوصی ایلچی شیام سرن نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ بھارت اس کانفرنس میں بڑی حد تک اپنا موقف منوانے میں کامیاب رہا۔

’’خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارت، چین، جنوبی افریقہ اور برازیل نے ترقی پزیر ملکوں کے ساتھ مل کر کیوٹوپروٹوکول اور بالی ایکشن پلان کو ختم نہیں ہونے دیا یہ ہماری بڑی کامیابی ہے۔‘‘

Kopenhagen Klimagipfel Proteste
کانفرنس کے آغاز سے اختتام تک تحفظ ماحول کے حامی مظاہرے کرتے رہےتصویر: AP

اس کانفرنس سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں، جس وجہ سے سرن نے دولتمند ملکوں کے طرزعمل کو ہدف تنقید بنایا۔ ان کے بقول کانفرنس سے قبل ترقی یافتہ ملکوں نے جو خوش کن اعلانات اور وعدے کئے تھے اس کی کوئی جھلک کانفرنس میں نظر نہیں آئی۔ اس کے برعکس ان ملکوں نے انہی پرانے حربوں کو استعمال کر نا شروع کر دیا، جس کا مقصد کانفرنس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا اور اس کے عوض ترقی پذیر ملکوں کو کم سے کم رعایت دینا تھا۔ سرن کے مطابق : ’’اس کا مقصد عالمی سطح پر رائج سیاسی اور معاشی نظام کو کسی بھی درجہ میں متاثر ہونے سے بچانا تھا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ بھارت نے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر اس بات کی بھرپور کوشش کی کہ اس کا پیش کردہ مسودہ پاس ہو جائے لیکن بدقسمتی سے محض چار پانچ ملکوں کی مخالفت کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کے باوجود بھارت کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں۔

جب ان سے یہ سوال کیاگیا کہ اس کانفرنس کے بعد بھارت کا مو قف کیا ہوگا اور وہ میکسیکو کانفرنس کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرے گا؟ تو سرن نے کہا کہ گو کوپن ہیگن کانفرنس سے کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا تاہم اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ کیوٹو پروٹوکول اور بالی ایکشن پلان کا وجود برقرار رہے اور یہ دونوں معاہدے مستقبل کے لئے راہ عمل ہوں۔

ان دونوں کی بنیاد پر ہی کوئی ٹھوس اور با معنی معاہدہ وجود میں آسکتا ہے۔ چونکہ بھارت گرین گیسوں کے اخراج کی تخفیف کے سلسلہ میں عالمی تقاضوں اور کسی قانونی بندش کو تسلیم نہیں کرتا ہے اس حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا کہ بھارت نے داخلی طور پر ماحولیا تی آلودگی کو کم کرنے کے لئے کیا منصوبے بنائے ہیں؟ تو اس کے جواب میں سابق خارجہ سیکریٹری نے کہا کہ بھارتی حکومت نے اس حوالے سے یک طرفہ طورپر کئی اہداف مقرر کئے ہیں۔ ان میں شمسی توانائی اور صاف ستھری توانائی کے حصول جیسے دیگر منصوبے بھی شامل ہیں۔ ان منصوبوں کے لئے متعلقہ اداروں کو جوابدہ بنایا گیا ہے لیکن اس سلسلے میں بھارت کسی بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں ہوگا۔

Ban Ki Moon in Kopenhagen
کوپن ہیگن کانفرنس سے دنیا بھر کے کروڑوں افراد کی بڑی امیدیں وابستہ تھیںتصویر: AP

بھارت عموما ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں تخفیف کے حوالے سے اپنی غریب آبادی کی دہائی دیتا ہے، اس حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا کہ بھارت میں امیروں کے طرز زندگی اور ترقی یافتہ ملکوں کے امیروں کی طرز زندگی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تو سرن نے کہا کہ اس دلیل میں کوئی وزن نہیں ہے۔ خود ورلڈ بینک کی رپورٹ میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہےکہ دولتمند ملکوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی شرح کیا ہےاور غریب ملکوں میں کیا ہے؟ تاہم ترقی یافتہ ممالک اس حوالے سے غریب ملکوں پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

ان کے مطابق اس کانفرنس کی حوصلہ افزاء بات یہ رہی کہ ماحولیات کے کارکنوں نے اجلاس کے باہر مسلسل مظاہرے کرکے دولتمند ملکوں پر دباؤ ڈالے رکھا اور امید ہے کہ اس سے عالمی سطح پر تحفظ ماحول کے لئے بیداری میں اضافہ ہوگا اور ترقی یافتہ ملکوں پر عوامی دباؤ مزید بڑھے گا۔

رپورٹ : افتخار گیلانی

ادارت : امتیاز احمد