1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب میں ہزاروں بھارتی ہنر مند بے روز گار

صائمہ حیدر19 اگست 2016

بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں تنزلی کے بعد سے سعودی معیشت کو مندی کا سامنا ہے۔ اس مندی نے وہاں کام کرنے والے ہزاروں بھارتی مزدوروں کو وطن واپس آنے پر مجبور کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Jlv4
Indische Arbeitsmigranten in Saudi-Arabien
سعودی عرب میں لاکھوں غیر ملکی چھوٹی موٹٰی مزدوریاں کرتے ہیںتصویر: Getty Images/AFP

جنوبی بھارتی ریاست کیرالا سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک میں چھوٹی موٹی نوکریاں کرتی ہے۔ سعودی عرب کے اقتصادی مسائل کے تناظر میں بہت سے بھارتی مزدور بھی دلخراش کہانیوں اور مستقبل کے حوالے سے خدشات کے ساتھ بھارت واپس لوٹ آئے ہیں۔

وطن واپس آنے والے ہزاروں مزدوروں میں سے ایک ابو سہومن نوشاد بھی ہے، جس نے کیرالا کے علاقے ترواننتپرم میں چلچلاتی دھوپ میں اینٹیں بنانے کے لیے سیمنٹ گھولتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کے لیے مشکل کام تو بچوں کا کھیل ہے، ’’آپ نے مجھے سعودی عرب میں کام کرتے ہوئے دیکھا ہوتا۔ وہ کام تشدد کے مترداف تھا۔‘‘

خلیجی ممالک میں ملازمت کی غرض سے جانے والے لاکھوں دوسرے مزدوروں کی طرح نوشاد نے بھی آٹھ برس قبل ایک بینک کے پاس اپنی بیوی کے زیورات گروی رکھ کر 2000 یورو کے لگ بھگ قرض لیا تھا۔ اس نے یہ رقم ایک ایجنٹ کو دی، جس نے اسے سعودی عرب میں تعمیر کے شعبے میں ملازمت دلانے کا وعدہ کیا۔ لیکن جب وہ ریاض پہنچا تو اسے ایک نجی فارم پر لے جایا گیا، جہاں وہ سبزیاں کاشت کرتا، ان پر کیڑے مار ادویات چھڑکتا، فصلوں کی بوائی اور کٹائی کا کام کرتا، کھانا پکاتا اور ہر وہ کام کرتا جو کرنے کو اسے کہا جاتا۔

Indien Neu Delhi Abu Sahuman Naushad
نوشاد نے بتایا کہ وہ بارہ گھنٹےکمر توڑ دینے والی مزدوری کرتا تھاتصویر: DW/S. Phalinkar

نوشاد نے بتایا کہ وہ بارہ گھنٹےکمر توڑ دینے والی مزدوری کرتا تھا، جس میں ویک اینڈ کے دوران بھی چھٹی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ نوشاد کو چھوٹے سے ایک کیمپ میں رکھا گیا تھا، جہاں اس کے ساتھ نو اور مزدور بھی رہتے تھے، جن کا تعلق پاکستان اور بنگلہ دیش سے تھا۔ سعودی عرب آنے سے قبل اس سے 800 سعودی ریال تنخواہ طے ہوئی تھی لیکن ایجنٹ کے کمیشن کاٹ لینے کے بعد اسے 600 ریال ہی مل پاتے تھے۔

نوشاد کھیتوں میں کام کر تے کرتے گھٹنوں کا مریض بن گیا۔ نوشاد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سب جہنم سے کم نہیں تھا۔ ملازمت قید کی طرح تھی کیونکہ اس کے مالک نے اس کا پاسپورٹ اپنے قبضے میں کر رکھا تھا اور وہ چاہتے ہوئے بھی ملازمت نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

نوشاد کے مطابق وہ وقت اس کی زندگی میں سب سے برا تھا، جب اس کی والدہ کینسر کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہوئیں لیکن اس کے سعودی مالک نے اسے مطلع نہیں کیا۔ جب اسے پتہ چلا تو اس کے پاس ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے اور اس کی والدہ اس کو دیکھے بغیر ہی انتقال کر گئیں۔

Indische Arbeitsmigranten in Saudi-Arabien
سعودی عرب میں کام کرنے والوں کی تعداد تیس لاکھ کے قریب ہےتصویر: Getty Images/AFP

نوشاد کی کہانی سعودی عرب جیسے تیل کی دولت سے مالا مال ملک کی معیشت میں مندی کے تناظر میں نئی کہانی نہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ملکوں کو زبردست نقصان ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں یہاں کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔

یاد رہے کہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق خلیجی ممالک سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات میں تقریباً ساٹھ لاکھ بھارتی شہری کام کرتے ہیں۔ ان میں سعودی عرب میں کام کرنے والوں کی تعداد ایک تہائی ہے، جو تیس لاکھ کے قریب ہے۔ اس کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کا نمبر آتا ہے۔