1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر پر بات چيت کی پیش کش ’محض فریب ہے‘

24 اکتوبر 2017

بھارتی حکومت نے پیر کی شام اچانک اعلان کیا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے سبھی ’اسٹیک ہولڈرز‘ یعنی تمام فریقین کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ کشمیر کے حوالے سے نریندر مودی کی حکومت کا موقف اب تک بہت سخت رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2mQsg
Indien Pakistan Teilung
تصویر: picture-alliance/AP/R. Maqbool

وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے لیے ملک کے خفیہ ادارے انٹلیجنس بیورو ( آئی بی) کے سابق سربراہ دنیشور پرساد کو حکومت کی طرف سے ثالث مقرر کیا گيا ہے جو کشمیر میں کسی سے بھی بات کرنے کے مجاز ہیں۔

 مرکزی حکومت اسے سیاسی مسئلہ تسلیم کرنے کے بجائے صرف امن و قانون کا مسئلہ بتاتی رہی ہے اور گزشتہ تین برس سے اس  کی پالیسی یہ تھی کہ کشمیر کے علیحدگی پسندوں سے بات چيت نہیں ہوسکتی۔ اس نے ریاست میں مخالف آوازوں کو کچلنے کے لیے خفیہ ایجنسیوں اور فوج کو سختی برتنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ اس کا خيال تھا کہ علیحدگی پسندوں سے سختی سے نمٹنے اور پاکستان کی مداخلت پر قابو پا لینے سے مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا۔ یہ پالیسی اب بھی جاری ہے لیکن حقیقتاﹰ یہ ناکام ثابت ہوئی ہے اور حالات اب پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔ حکومت بھی اس بات سے آگاہ ہے کہ کشمیر میں اتنی بے چینی شاید اس سے پہلے کبھی بھی نہیں تھی جتنی اس وقت پائی جاتی ہے۔

کشمیر کی ہندو نواز سیاسی جماعتوں نے مذاکرات کی پیش کش کا خیر مقدم کیا ہے۔ ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے حکومت کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’کشمیری عوام جن حالات سے گزر رہے ہیں، ایسے میں بات چیت کا آغاز بہت ضروری ہے۔ مذاکرات سے ہی لوگوں کی مشکلات دور ہوں گی۔‘‘

	Indien Kashmir Protest
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. M. Chaudary

اپوزیشن نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے بھی حکومت کی بات چیت کی پیش کش کا خیر مقدم کیا ہے تاہم انہوں نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں حکومت پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’کشمیر کے مسئلے کو ایک سیاسی مسئلہ تسلیم کر لینا ان سبھی کی شکست فاش ہے، جو صرف طاقت کے استعمال کو اس مسئلے کا حل سمجھتے ہیں۔‘‘ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات ہونے چاہئیں اور کشمیر پر بات چیت میں پاکستان کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔

کشمیر کی ہندو نواز سیاسی جماعتوں نے مذاکرات کی اس پیش کش کو خوش آئند بتایا ہے تاہم علیحدگی پسندوں کی جانب سے اس پر جو سرد مہری اختیار کی گئی ہے، اس سے لگتا ہے کہ وہ اس پیش کش کو مسترد کر چکے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں سے بات چیت کی کوشش کی تاہم کسی نے بھی فون کال کا جواب نہیں دیا۔ وادی کشمیر کے دانشوروں، انسانی انسانی کے کارکنوں اور دیگر عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اعلانات پہلے بھی کئی بار ہوتے رہے ہیں لیکن ان کے نتائج بہت مایوس کن رہے ہیں۔

کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ سیاست سے وابستہ ایک پروفیسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’تاریخی طور پر تو یہ ثابت ہے کہ یہ حکومت کی طرف سے بسوقت گزارنے کی ایک کوشش ہے۔ عوامی سطح پر بھی اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی اثر پڑتا ہے کیونکہ اس طرح کے اعلانات بہت بار پہلے بھی ہو چکے ہیں لیکن حقیقت میں ہوتا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں میں حکومت نے بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کو ان سے کچھ ہاتھ  لگا ہو کہ اس وقت بات چیت کرنے سے کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، ’’شاید اسی لیے اس کا اعلان کیا گيا ہے۔‘‘

Kashmir Protest
تصویر: Reuters/D. Ismail

دارالحکومت دہلی میں بھی سیاسی اور سماجی حلقوں نے مذاکرات کا خیرمقدم کیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ آخر حکومت گزشتہ تین برسوں سے کیا کر رہی تھی؟ کشمیر مسئلے کے حل کے لیے کانگریس کی حکومت نے پہلے جو تین ثالث مقرر کیے تھے ان میں سے ایک ایم ایم انصاری نے حکومت کے اس اعلان کو فریب کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’ایک پولیس افسر کی بطور ثالث تقرری اس بات کی غماز ہے کہ حکومت ’کشمیریوں کو گولی یا گالی سے نہیں بلکہ گلے لگانے سے بات بنے گی‘ کے نعرے پر یقین نہیں رکھتی۔ حکومت اس مسئلے کو اب بھی سکیورٹی اور انٹلیجنس کے نظریے سے ہی دیکھ رہی ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ دل کے مرض کے علاج کے لیے ہڈی والے ڈاکٹر کے پاس جایا جائے۔ یہ ایک فریب ہے، بلکل بے کار عمل ہے۔‘‘

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مستقل فوجی آپریشنوں،  مسلسل گرفتاریوں، سکیورٹی فورسز کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن جیسے اقدامات سے خوف و ہراس کا ماحول ہے، جس کے سبب لوگوں میں سخت مایوسی پیدا ہوئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت کی اس پیش کش پر سرد مہری پائی جاتی ہے۔

انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس وقت ہر عمر اور طبقے کے سینکڑوں کشمیری اس الزام میں جیلوں میں پڑے ہیں کہ انہوں نے بھارت مخالف مظاہروں میں حصہ لیا تھا جبکہ بیشتر علیحدگی پسند رہنما بھارتی ایجنسیوں کی حراست میں ہیں۔

 سید علی گیلانی جیسے رہنما کئی برسوں سے گھر میں نظر بند ہیں جبکہ میر واعظ عمر فاروق کو تاریخی جامع مسجد میں جمعے کے اجتماع سے خطاب کی اجازت تک نہیں ہے۔ مبصرین کے مطابق اس طرح کی سختیوں کے ماحول میں بات چیت کی پیش کش بے معنی ہے اور اس سے گراؤنڈ پر کوئی تبدیلی نہیں آنے والی ہے۔