1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشتیاں چلانے والے، مہاجر یا انسانی اسمگلر؟

صائمہ حیدر
12 دسمبر 2016

اٹلی آنے والے ایک مہاجر مارک سامی کے ذہن میں اب تک وہ منظر محفوظ ہے، جب اسے اپنی سات ماہ کی حاملہ منگیتر کو لیبیا کے ساحل پر  اس لیے روتا چھوڑ کر آنا پڑا کیونکہ انسانی اسمگلرز نے اسے کشتی چلانے پر مجبور کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/2U92x
Italien Flüchtlinge an Deck der Aquarius vor der italienischen Küste
انسانی اسمگلر قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے کم عمر مہاجرین کے ہاتھ میں کشتی کے پتوار تھما دیتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/B. Janssen

سامی کی منگیتر لوئیس سات ماہ کی حاملہ تھی۔ وہ دونوں ایک ساتھ اٹلی جانا چاہتے تھے لیکن انسانی اسمگلروں نے اُس کی منگیتر کو یہ کہہ کر روک لیا کہ وہ اگلی کشتی پر آئے گی اور خود سامی کو ایک سیٹیلائٹ فون اور ایک قطب نما دے کر کشتی اٹلی کی طرف لے جانے کے لیے مجبور کیا۔

سامی کے انکار پر انہوں نے اس کی ٹانگوں کے درمیان کلاشنکوف سے فائر کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ کشتی لے جانے پر تیار نہ ہوا تو اُسے اور اُس کی منگیتر دونوں کو مار دیا جائے گا۔ یہ گزشتہ جولائی کی بات ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ سامی کے ساتھ بطور ِ مہاجر سلوک کیا جاتا، اٹلی میں پولیس نے اسے غیر قانونی امیگریشن میں سہولت کار ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کر لیا۔

 افریقی ملک ٹوگو سے تعلق رکھنے والا سامی اُن سینکڑوں مہاجرین میں سے ایک ہے، جو اٹلی میں غیر قانونی مہاجرت میں سہولت فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار ہیں۔ اطالوی پولیس، دفترِاستغاثہ اور عدالتیں انسانوں کی غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف نبرد آزما ہیں۔

 یہ تارکینِ وطن دراصل انسانی اسمگلروں کے ایک نئےحربے کا شکار ہیں۔ یہ انسانی اسمگلر قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے مہاجرت کے سفر پر آمادہ اِن افراد کے ہاتھ میں، جن میں سے زیادہ تر کم عمر مہاجر ہوتے ہیں، کشتی کے پتوار تھما دیتے ہیں ۔

 تقریباﹰ روزانہ ہی اطالوی حکام کشتیاں چلانے والے افراد کو حراست میں لیتے ہیں تاہم اِس حوالے سے وہ بھی پُر یقین نہیں کہ آیا یہ تارکینِ وطن ہی ہیں یا انسانی اسمگلرز۔ اگرچہ حراست میں لیے جانےوالے ان افراد کے حوالے سے جامع اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں تاہم اس سال صرف پوزالو کی بندرگاہ سے ہی 179 مبینہ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کیا گیا۔ گزشتہ سال یہ تعداد 147 تھی۔

اطالوی پولیس اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ وہ انسانی اسمگلنگ کے اُن اصل ذمّہ داران تک نہیں پہنچ سکی ہے، جو اس غیر قانونی کاروبار کے ذریعے اچھا خاصا منافع کما رہے ہیں۔ کٹانیا میں ڈپٹی پراسیکیوٹر آندریا بونوموکا کہنا ہے کہ ابھی تک لیبیا میں پولیس ایک بھی انسانی اسمگلر کو گرفتار نہیں کر سکی ہے۔ بونومو کے مطابق انسانی اسمگلنگ کا جرم ثابت ہونے پر پندرہ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔