1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی کی بانو بیگم بھارت میں مکھیا کیسے بنیں؟

جاوید اختر، نئی دہلی
1 جنوری 2021

بھارتی صوبے اتر پردیش کی پولیس نے نجی حقائق چھپا کر پنچایت کے انتخاب میں حصہ لینے کے الزام میں پاکستانی شہر کراچی کی ایک خاتون کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ وہ گزشتہ برس ایک گاؤں کی کار گزار مکھیا بنا دی گئی تھیں۔

https://p.dw.com/p/3nQj1
Reisepass Pakistan
تصویر: picture-alliance/dpa/Polish Border Guard/K. Grzech

ریاست اتر پردیش کے ضلع ایٹہ کی انتظامیہ نے 65 سالہ پاکستانی خاتون بانو بیگم کے خلاف مقدمے کے اندراج کا حکم دیا۔ بانو بیگم پر الزام ہے کہ وہ طویل المدتی ویزے پر تقریباً چالیس برس قبل بھارت آئی تھیں اور اس وقت سے نہ صرف بھارت میں مقیم ہیں بلکہ انہوں نے اپنے بارے میں حقائق کو مبینہ طور پر چھپا کر سن 2015 میں ہونے والے ایک پنچایتی الیکشن میں حصہ بھی لیا تھا۔

بانو بیگم اس الیکشن میں پنچایت کی رکن منتخب ہو گئی تھیں اور گزشتہ برس اس گاؤں کی 'گرام پردھان‘ (مکھیا) کے انتقال کے بعد انہیں کار گزار مکھیا بھی بنا دیا گیا تھا۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ان کے خلاف شکایت کی چھان بین شروع ہونے کے بعد بانو بیگم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

ضلع ایٹہ کے ایڈیشنل مجسٹریٹ کیشو کمار کا اس حوالے سے کہنا ہے، ''چھان بین کے دوران ہمیں پتا چلا کہ بانو بیگم طویل المدتی ویزے پر بھارت میں مقیم تھیں۔ انہوں نے پنچایت کے الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی میں اپنے نجی کوائف چھپائے تھے۔ ان کے خلاف کیس درج کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔"

ایڈیشنل مجسٹریٹ کے مطابق گاؤں کے پنچایت سیکرٹری کے خلاف بھی شعبہ جاتی انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے، جن کی سفارش پر بانو بیگم کو کار گزار 'گرام پردھان‘ مقرر کیا گیا تھا۔

پولیس بانو بیگم کی شناختی دستاویزات بشمول آدھار (شناختی) کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ کی بھی جانچ کر رہی ہے، کیونکہ کسی بھی انتخاب میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے یہ دونوں کارڈ لازمی ہوتے ہیں۔

بھارت میں پاکستانی ہندوؤں نے نئی شہریت بل کا خیرمقدم کر دیا

معاملہ ہے کیا؟

ایٹہ کی ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بانو بیگم 1980 کے عشرے میں اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں شادی میں شرکت کے لیے پاکستان سے بھارت آئی تھیں اور بعد میں انہوں نے ایٹہ کی تحصیل جلیسر کے گاؤں گڈاہو کے ایک رہائشی اختر علی سے شادی کر لی تھی۔ کراچی کی رہنے والی بانو شادی کے بعد کبھی پاکستان واپس نہیں گئیں۔ وہ طویل المدتی ویزے پر بھارت میں مقیم رہیں۔ چونکہ وہ بھارتی شہریت حاصل نہ کر پائیں، اس لیے اپنے ویزے کی مدت میں مسلسل توسیع کراتی رہیں۔

ایٹہ میں اپنے قیام کے دوران بانو بیگم اپنے حسن اخلاق سے عام لوگوں میں خاصی مقبول ہوگئیں۔ انہوں نے سن 2015 میں گرام پنچایت کی رکنیت کے لیے الیکشن لڑا اور اس میں کامیاب بھی رہی تھیں۔

ایک سرکاری اہلکار آلوک پریہ درشی نے بتایا کہ گزشتہ برس 9 جنوری کے روز گڈاہو گاؤں کی پردھان شہناز بیگم کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد گاؤں کی پنچایت کے سیکرٹری دھیان پال سنگھ کی سفارش پر بانو بیگم کو گاؤں کی کار گزار پردھان بنا دیا گیا تھا۔

گاؤں کے ایک مقامی رہائشی نے حال ہی میں ضلعی انتظامیہ کو یہ تحریری شکایت کی تھی کہ بانو بیگم تو بھارتی شہری ہی نہیں ہیں اور انہیں کار گزار گرام پردھان کے عہدے پر منتخب کرنے کے عمل میں لازمی ضوابط نظر انداز کیے گئے تھے۔ ضلعی حکام کے مطابق انہوں نے تفتیش کی تو پتا چلا کہ بانو بیگم کو کار گزار پردھان بنانے کے عمل میں تمام ضروری ضوابط کو پیش نظر رکھا گیا تھا۔ تاہم اس دوران یہ بھی طے ہو گیا کہ بانو بیگم تو بھارتی شہری ہی نہیں ہیں۔

جب بانو بیگم کے پاکستانی شہری ہونے کی خبرعام ہوئی، تو انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ مگر اب ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

پاکستانی سینما گھر بھارتی فلموں کے بغیر ویران

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں