1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کانگو: تازہ جھڑپیں

6 نومبر 2008

اقوام متحدہ کے فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ ڈیمو کریٹک ری پبلک کانگو میں ٹوٹسی باغیوں نے تازہ جھڑپوں کے دوران ملک کے شمالی دیہات پر قبضہ کرلیا ہے اور شمالی صوبے Kivu پر کنٹرول بڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Foow
متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے شہریوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہےتصویر: AP

کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ کرنل ژاں پال ڈیٹرش کا کہنا ہے کہ باغیوں نے نیائنزالے اور کیکوکو پر قبضہ کر لیا ہے جس سے باغیوں کے اپنی ہی اعلان کردہ جنگ بندی کا خاتمہ بھی ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ باغی اس خطے کا کوئی نہ کوئی حصہ اپنے کنڑول میں لینے کی کوشش کررہے ہیں۔

باغیوں کی ان کارروائیوں سے علاقے میں پرتشدد وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے شہریوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

کرنل ژاں پال نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے فوجیوں کے ساتھ انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن بھی باغیوں کی جانب سے شہریوں کے قتل کی خبروں سے متعلق رپورٹس کا جائزہ لے رہے ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق شمالی گوما میں بہت زیادہ کشیدگی کے شکار کیوانجا نامی ایک گاؤں سے ہزاروں باشندے خوف زدہ حالت میں متعدد نواحی دیہات میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

ایک طرف اقوام متحدہ اور افریقی یونین نیروبی میں کانگو کے مسئلے کے حل کے لیے ایک سربراہی اجلاس منعقد کرنے جارہے ہیں تو دوسری طرف امدادی ادارے ڈھائی لاکھ پناہ گزینوں کو خوراک اور دوائیں مہیا کرنے میں مصروف ہیں۔ امدادی تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی کانگو کے شورش زدہ علاقوں میں ایک لاکھ سے زائد بے گھر افراد میں سے بیشتر ابھی تک امدادی سامان کے منتظر ہیں۔

اسی دوران جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے برلن میں کانگو اور روانڈا کی حکومتوں سے اپیل کی کہ انہیں اس مسئلے کے حل کے لئے کل جمعہ کے روز نیروبی میں ہونے والی بحرانی سربراہی کانفرنس میں کوئی قابل عمل تجاویز پیش کرنا چاہئیں۔