1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کالعدم جماعت المجاہدین بنگلہ دیش کا مشتبہ سربراہ گرفتار

مقبول ملک
3 مارچ 2017

بنگلہ دیش میں انسداد دہشت گردی کے ذمے دار دستوں نے کالعدم شدت پسند تنظیم جماعت المجاہدین بنگلہ دیش کے مشتبہ سربراہ ابوالقاسم کو گرفتار کر لیا ہے۔ گزشتہ برس ڈھاکا کے ایک کیفے پر ایک بڑا خونریز حملہ اسی تنظیم نے کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/2YaxM
Bangladesch Polizei Islamisten Dhaka
گزشتہ برس جولائی میں ڈھاکا کیفے پر حملے میں مارے جانے والے بیس عام شہریوں میں سے اٹھارہ غیر ملکی تھےتصویر: Getty Images/AFP

بنگلہ دیشی دارالحکومت سے جمعہ تین مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ملزم ابوالقاسم پر شبہ ہے کہ وہ قانونی طور پر ممنوع قرار دی جا چکی جماعت المجاہدین بنگلہ دیش کے اس دھڑے کا سربراہ اور روحانی رہنما ہے، جس نے 2016ء میں ڈھاکا میں ملکی اور غیر ملکی باشندوں میں مقبول ایک بہت مصروف کیفے پر ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کر کے کم از کم 20 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

پولیس نے آج جمعے کے روز بتایا کہ 60 سالہ ابوالقاسم کو انسداد دہشت گردی کے ذمے دار سکیورٹی اہلکاورں نے اپنی کارروائی کے دوران دارالحکومت ڈھاکا ہی سے جمعرات دو مارچ کو رات گئے گرفتار کیا۔ پولیس کے ترجمان مسعود الرحمٰن نے صحافیوں کو بتایا کہ ابوالقاسم بنیادی طور پر ایک اسلامی مدرسے کا استاد ہے، جو عسکریت پسند تنظیم جماعت المجاہدین بنگلہ دیش یا جے ایم بی کے ایک بڑے دھڑے کا روحانی رہنما بھی ہے۔

ڈھاکا کیفے حملے کا ’مشتبہ ماسٹر مائنڈ‘ پولیس مقابلے میں ہلاک

ڈھاکا حملہ: بنگلہ دیشی کینیڈین سرغنہ ساتھیوں سمیت مارا گیا

پولیس ترجمان نے یہ بھی کہا کہ اسی شدت پسند مذہبی رہنما نے ان دو افراد کو بھی عسکریت پسندی پر مائل کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا، جنہوں نے بعد میں ڈھاکا شہر کے سفارتی علاقے میں قائم مشہور ’ہولی آرٹیزین بیکری‘ پر پچھلے سال کیے گئے مسلح حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

یکم جولائی 2016ء کے روز کیے گئے اس حملے میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بیس افراد میں نو اطالوی اور سات جاپانی باشندوں کے علاوہ ایک بھارتی، ایک بنگلہ دیشی نژاد امریکی اور دو مقامی شہری بھی شامل تھے۔

Screenshot IS-Propaganda Video Bangladesh Terror
داعش کی طرف سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں ڈھاکا کیفے پر حملہ کرنے والے پانچ شدت پسندوں میں سے ایک جہادی کی تصویرتصویر: Reuters/Courtesy SITE Intel Group

دہشت گردوں نے اس حملے کے دوران بہت سے افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا اور اگلی صبح جب ملکی فوج کے کمانڈوز نے اپنا آپریشن شروع کیا تھا، تو اس دوران حملے میں ملوث پانچوں دہشت گرد، ان کا ایک مبینہ سہولت کار جو اسی کیفے کا باورچی تھا، اور دو پولیس اہلکار بھی اس کارروائی میں مارے گئے تھے۔

اس ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے کی ذمے داری عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے قبول کر لی تھی لیکن  بنگلہ دیشی حکومت نے اس کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملہ کسی بین الاقوامی شدت پسند گروپ نے نہیں بلکہ مقامی عسکریت پسندوں نے کیا تھا۔ ڈھاکا حکومت ملک میں غیر ملکی دہشت گرد گروہوں کی موجودگی سے انکار کرتی ہے۔

ڈھاکا حملے کا ماسٹر مائنڈ ایک کینیڈین شہری، پولیس

بنگلہ دیش میں تشدد بڑھتا ہوا ، وجوہات آخر کیا؟

اس کے بعد بنگلہ دیشی حکام نے یہ بھی کہا تھا کہ ڈھاکا کے کیفے پر یہ حملہ کالعدم جماعت المجاہدین بنگلہ دیش ہی کے ایک ایسے منحرف دھڑے نے کیا تھا، جو ’نئی جے ایم بی‘ یا Neo JMB کہلاتا ہے، اور جس کا سربراہ مبینہ طور پر ابوالقاسم ہی ہے۔

پولیس کے مطابق ملکی دارالحکومت میں اس حملے کے بعد سے، جس میں ہلاک ہونے والوں کی بہت بڑی اکثریت غیر ملکیوں کی تھی، سکیورٹی فورسز 40 سے زائد مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر چکی ہیں۔ ان شدت پسندوں میں ایک ایسا بنگلہ دیشی نژاد کینیڈین شہری بھی شامل تھا، جس نے ڈھاکا میں کیفے پر حملے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔