1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کاروان سرائے: ناپید ہوتے افغان فنونِ لطیفہ کا آخری سہارا

عابد حسین
21 اگست 2017

افغان معاشرہ خانہ جنگی سے قبل کئی فنون کے ماہرین کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ ان فنون میں ظروف سازی، معماری، خطاطی اور خام قیمتی پتھروں کی مہارت سے تراش خراش خاص طور پر اہم تصور کیے جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2iYV4
Bildergalerie Kalligraphie-Ausstellung Navid Alrahman Alam in Herat, Afghanistan
تصویر: Hashimi

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے نواح میں ایسے فنون کے ماہرین کو یکجا کرنے کے لیے ایک مرکز قائم کیا گیا ہے۔ اس مرکز کا نام ’کاروان سرائے‘ رکھا گیا ہے۔ اس میں افغانستان کے طول و عرض سے ظروف ساز، لکڑی پر نقش بنانے والے ترکھان، ماہر خطاط اور قیمتی پتھروں کے تراش کار جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ ابھی بھی نایاب اور ماہر فن کاروں کی تلاش جاری و ساری ہے۔ کاروان سرائے کا مقصد ناپید ہوتے فنون کو محفوظ کرنا ہے۔

انتہا پسند ثقافتی ورثے کے دشمن کیوں؟

کابل کے فرانسیسی اسکول میں ثقافتی شو کے دوران خودکش حملہ

کاروان سرائے کی تشکیل ایک مشکل اور محنت طلب کام تھا لیکن مسلسل حکومتی سرپرستی اور بین الاقوامی امداد کے باعث اس کا قیام ممکن ہوا ہے۔ یہ نیم غیرسرکاری ادارہ ہے اور اسے حکومتی نگرانی بھی میسر ہے۔ اس غیر منافع بخش ادارے کے سربراہ عبدالوحید خلیلی ہیں۔

Kalligraphie in Afghanistan
تصویر: DW/H. Sirat

خلیلی نے اپنے ادارے میں لائے گئے فن کاروں کے حوالے سے کہا کہ جب کاروان سرائے کے لیے مختلف فنون کے ماہرین کی تلاش کا عمل شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ بیشتر ایسے فنکار دوسرے ملکوں کی جانب مہاجرت کر چکے ہیں۔ خلیلی نے واضح کیا کہ ابتدا اُن فنکاروں سے کی گئی جو ملک کے اندر ہی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔

خلیلی کے مطابق قدیم زمانے سے وسطی ایشیا کے تجّار کے لیے شاہراہِ ریشم پر کابل ایک اہم پڑاؤ تصور کیا جاتا رہا ہے اور اس باعث یہاں ظروف ساز، معمار، خطاط اور خام قیمتی پتھروں کی ماہر کثیر تعداد میں موجود ہوتے تھے لیکن اب جنگی حالات نے ایسے ٓنایاب افراد کو دربدر کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں اس ادارے کی تشکیل کا بنیادی مقصد بچے کھچے فنکاروں کو جمع کرنا اور اگلی نسل کی تربیت ہے تا کہ یہ فنون پوری طرح ناپید نہ ہو جائیں۔

ایک افغان لڑکی خوف اور دھمکیوں کے آگے ڈٹ گئی

کاروان سرائے کی ابتدا ایک طرح سے ایک برطانوی سفارت کار روری اسٹیورٹ کی قیمتی پتھر فیروزہ کے تحفظ کے لیے بنائی گئی فاؤنڈیشن سے ہوئی تھی۔ اس ادارے کو امریکا کے بین الاقوامی امداد کے ادارے یو ایس ایڈ کی معاونت بھی حاصل ہے۔ اس وقت کاروان سرائے میں بھرپور محنت و مشقت سے تلاش کیے گئے فنکار اور اُن کے شاگردوں کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے۔