1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل میں خونریز حملہ، افغان سپریم کورٹ کی دو خواتین جج ہلاک

17 جنوری 2021

افغان دارالحکومت کابل میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ملکی سپریم کورٹ کی دو خواتین ججوں کو ہلاک کر دیا۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق آج اتوار کی صبح کیے جانے والے اس حملے میں ایک تیسری خاتون جج زخمی بھی ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/3o1wX
تصویر: Rahman Gul/dpa/AP/picture alliance

کابل میں ملکی سپریم کورٹ کے ترجمان احمد فہیم قاوم نے بتایا کہ ہلاک ہونے والی دونوں خواتین عدالت عظمیٰ کی اہلکار اور قومی عدلیہ کی رکن تھیں۔ دوسری طرف ملکی وزارت داخلہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں دو خواتین جج ہلاک اور ایک تیسری خاتون جج زخمی بھی ہو گئی۔ ان تینوں خواتین کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔

بھارتی قومی سلامتی مشیر کا ’اچانک‘ دورہ افغانستان

سپریم کورٹ کے ترجمان قاوم کے مطابق  ان ججوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے دفتر جانے کے لیے کابل شہر کے دسویں ضلع میں سفر میں تھیں۔ اس حملے کی تاحال افغان طالبان یا کسی بھی دوسرے مسلح گروپ نے ذمے داری قبول نہیں کی۔

حملہ افغان سپریم کورٹ کی گاڑی پر کیا گیا

آج کا حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب ماہرین کو پہلے ہی سے اس بات پر شدید تشویش ہے کہ ہندوکش کی اس ریاست میں گزشتہ کچھ عرصے سے اہم شخصیات کو ہدف بنا کر ہلاک کرنے کی ایک باقاعدہ لہر دیکھنے میں آ رہی ہے۔

افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات میں پاکستان کا کردار

افغان سپریم کورٹ کے ترجمان احمد فہیم قاوم کے مطابق، ''ان ججوں پر حملہ اس وقت کیا گیا، جب وہ عدالت عظمیٰ کی ایک گاڑی میں سوار تھیں اور اپنے دفتر جا رہی تھیں۔‘‘

Bombenanschlag in Kabul
کابل میں کل ہفتے کے روز پولیس کی ایک بکتر بند گاڑی پر بھی بم حملہ کیا گیا تھا، جس میں متعدد پولیس اہلکار مارے گئے تھےتصویر: Rahmat Gul/dpa/AP/picture alliance

سپریم کورٹ کی خواتین ججوں کی تعداد 200 سے زائد

افغانستان کی سپریم کورٹ کے لیے کام کرنے والی خواتین ججوں کی مجموعی تعداد 200 سو سے زائد ہے اور آج کا حملہ ایسی کوئی پہلی خونریز کارروائی نہیں، جس میں عدالت عظمیٰ کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔

طالبان کے حملے جاری لیکن امن مذاکرات دوبارہ شروع

کابل میں سپریم کورٹ پر اب تک کا سب سے ہلاکت خیز حملہ فروری 2017ء میں کیا گیا تھا۔ تب تقریباﹰ چار سال قبل ایک خود کش حملہ آور نے خود کو اس عدالت کے اہلکاروں کے ایک ہجوم کے عین درمیان میں دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ تب اس حملے میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور 41 زخمی ہو گئے تھے۔

سرکردہ شخصیات کو ہدف بنانے کا رجحان

افغانستان میں حالیہ مہینوں کے دوران یہ واضح رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ دارالحکومت کابل اور دیگر بڑے شہروں میں دن دیہاڑے کیے جانے والے حملوں میں سرکردہ حکومتی یا سماجی شخصیات کو ٹارگٹ بنا ہلاک کر دیا جاتا ہے۔

طالبان حملے روکنے پر آمادہ نہیں، مذاکرات کار

ان ہلاک شدگان میں سے بہت سے سیاستدان اور صحافی بھی تھے اور سرکردہ سماجی کارکن، ڈاکٹر اور سرکاری وکلائے استغاثہ بھی۔ افغان حکام ان بڑھتے ہوئے حملوں کا الزام طالبان عسکریت پسندوں پر لگاتے ہیں تاہم طالبان اس بات سےا نکاری ہیں کہ وہ دوحہ میں کابل حکومت کے ساتھ جاری اپنی امن بات چیت کے باوجود افغانستان میں اپنے حملوں میں تیزی لا چکے ہیں۔

طالبان تشدد کی راہ چھوڑ کر حکومت میں شامل ہوں، افغان نائب صدر

گزشتہ برس طالبان کے 18 ہزار سے زائد حملے

افغانستان کی قومی  انٹیلیجنس کے سربراہ احمد ضیا سراج نے ابھی اسی مہینے ملکی پارلیمان کے ارکان کو بتایا تھا کہ گزشتہ برس طالبان کے حملوں کے حوالے سے خاص طور پر ہلاکت خیز رہا تھا۔

سراج کے مطابق 2020ء میں طالبان نے ملک میں مجموعی طور پر 18 ہزار سے زائد مسلح حملے کیے، جن میں ہزاروں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔

طالبان لیڈروں کے ’پاکستان میں کیمپوں‘ کے دورے، کابل کو تشویش

افغانستان: کابل کے نائب گورنر سمیت تین افراد ہلاک

امریکی فوجیوں کی کم ترین تعداد

جہاں تک امریکی افواج کا تعلق ہے تو واشنگٹن انتظامیہ طالبان کے ساتھ دوحہ میں ہونے والی ڈیل کے بعد ہندوکش کی اس ریاست سے اپنے فوجی واپس بلانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

جمعہ پندرہ جنوری کے روز امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا تھا کہ افغانستان میں تعنینات امریکی فوجیوں کی تعداد اب مزید کم ہو کر صرف ڈھائی ہزار رہ گئی ہے۔ یہ تعداد گزشتہ تقریباﹰ دو عشروں کے دوران افغانستان میں تعنیات امریکی فوجیوں کی سب سے کم تعداد ہے۔

عمران خان کا پہلا اور ’تاریخی‘ دورہ افغانستان

امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت امریکی حکومت کو افغانستان سے اپنے تمام فوجی اس سال مئی تک واپس بلانا ہیں۔

م م / ا ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)