1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ڈرٹی گرلز آف ليسبوس‘ آخر کر کيا رہی ہيں؟

عاصم سليم27 مارچ 2016

ايک رضاکار گروپ کے ممبران ليسبوس کے ساحلوں اور مہاجر کيمپوں سے مہاجرين کے ایسے کپڑے اور ديگر اشياء جمع کرتے ہيں جو پھینک دیے جاتے ہیں۔ انہی اشیاء کو بعد ازاں صفائی کے بعد دیگر مہاجرين ميں دوبارہ تقسيم کر دیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IKTm
تصویر: Gemima Harvey

يورپ کو درپيش مہاجرين کا بحران دنيا بھر سے امدادی تنظيموں اور رضاکاروں کو متعلقہ مقامات پر کھينچ لايا ہے۔ يونانی جزيرے ليسبوس پر شام، اسپين، ہالينڈ، انگلينڈ، امريکا، فن لينڈ، آسٹريليا، آئر لينڈ اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے بين الاقوامی رضاکاروں کا ايک گروپ ماحول دوست اور ایک دلچسپ کام کر رہا ہے۔ يہ رضاکار ليسبوس کے ساحلوں اور مہاجر کيمپوں سے ايسے پرانے کپڑے جمع کرتے ہيں، جنہيں پناہ گزين پھينک ديتے ہيں۔ موزے، کمبل، دستانے، پينٹيں، جيکٹيں وغيرہ چنی جاتی ہيں اور پھر ان کی چھانٹی کر کے انہيں دھلائی کے ليے بھيج ديا جاتا ہے۔ وہ کپڑے جنہيں تارکين وطن يونان آمد پر پھينک ديتے ہيں، انہيں دھو، سکھا اور پھر استری کر کے پيکٹوں ميں بند کر کے دوبارہ تقسيم کے مقصد سے ڈسٹريبيوشن سينٹرز روانہ کر ديا جاتا ہے۔

يہ منصوبہ ڈرٹی گرلز آف ليسبوس (DG) نامی ايک تنظيم کی کاوشوں کا نتيجہ ہے، جسے آسٹريلوی شہری ايليسن ٹيری ايونز نے گزشتہ برس اکتوبر ميں شروع کيا تھا۔ ڈی ڈبليو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وہ بتاتی ہيں کہ ڈرٹی گرلز آف ليسبوس کی بنياد ’احترام‘ پر مبنی ہے، ’’سمندروں کا سفر طے کر کے آنے والوں کا احترام اور يہاں رہنے والے لوگوں اور ماحول کا احترام تاکہ يہاں کوئی ماحولياتی الميہ رونما نہ ہو۔‘‘

منصوبے کی بانی آسٹريلوی شہری ايليسن ٹيری ايونز
منصوبے کی بانی آسٹريلوی شہری ايليسن ٹيری ايونزتصویر: Gemima Harvey

سن 2015 ميں يورپ پہنچنے والے ايک ملين سے زائد پناہ گزينوں ميں نصف سے زيادہ سب سے پہلے ليسبوس پر اترے تھے اور اس سال بھی اب تک تقريباً چھياسی ہزار تارکين وطن ليسبوس پہنچ چکے ہيں۔ جزيرے آمد پر انہيں موريا ميں قائم ’ہاٹ اسپاٹ‘ روانہ کر ديا جاتا ہے، جہاں ان کے اندراج کا کام اور دستاويزی کارروائی مکمل کی جاتی ہے۔ سمندر کے سفر کے دوران انسانوں کے اسمگلر وزن کم کرنے کے ليے کشتيوں سے ان کا سامان پھينک ديتے ہيں اور اسی ليے آمد پر کپڑوں کی ضرورت قابل فہم بات ہے۔

ٹيری ايونز اور ان کی ٹيم نے ماحول دوست انداز ميں مہاجرين کی مدد کا يہ انوکھا طريقہ اختیار کيا ہے۔ يہ تنظيم زيادہ تر ان افراد ہی کی مدد سے فعال ہے جو رضاکارانہ بنيادوں پر اس سے منسلک ہيں جب کہ ڈرٹی گرلز آف ليسبوس کی مالی ضروريات نجی ڈونرز پوری کرتے ہيں۔

دو دوست انا مورٹن اور لوئيس ايڈورڈ برطانيہ سے ليسبوس پہنچے ہيں۔ کپڑوں کی چھانٹی کے علاوہ وہ اکثر اپنی تنظيم کے بيس اسکالا سيکامانياس نامی ديہات ميں وقت گزارتے ہيں۔ وہاں يہ دونوں جوتوں کی جوڑياں تلاش کر کے انہيں سکھانے کے ليے لکڑی کے ايک تخت پر رکھ ديتے ہيں تاکہ وہ دوبارہ قابل استعمال ہو سکيں۔ انا مورٹن نے ڈی ڈبليو سے گفتگو ميں بتايا، ’’ميں نے يہاں آ کر ڈرٹی گرلز آف ليسبوس کے ساتھ کام کرنے کا فيصلہ اس ليے کيا کيونکہ ميں ری سائيکلنگ ميں دلچسپی رکھتی ہوں اور مجھے چيزيں پھينکنا نہيں پسند۔‘‘۔

انا مورٹن اور لوئيس ايڈورڈ جوتوں کی جوڑياں تلاش کر کے انہيں سکھانے کے ليے لکڑی کے ايک تخت پر رکھ ديتے
انا مورٹن اور لوئيس ايڈورڈ جوتوں کی جوڑياں تلاش کر کے انہيں سکھانے کے ليے لکڑی کے ايک تخت پر رکھ ديتےتصویر: Gemima Harvey

اب تک يہ منصوبہ صرف ليسبوس ميں پايہ تکميل تک پہنچا ہے تاہم ٹيری ايونز اسے پورے يونان بالخصوص دارالحکومت ايتھنز تک پہنچانا چاہتی ہيں۔ وہ پچھلے سات سالوں سے ليسبوس ہی ميں ہيں اور وہ جنگ و جدل، بے روز گاری، سياسی عدم استحکام وغيرہ جيسے حالات سے فرار ہونے والوں کی کافی مدد کر چکی ہيں۔