1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈاکٹر قدیر کا باب بند ہو چکا ہے : پاکستانی وزیر اعظم

امتیاز گل ، اسلام آباد13 جنوری 2009

امریکی انتظامیہ کی طرف سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مبینہ جوہری پھیلاؤ کے نیٹ ورک سے منسلک جن 13 افراد اور 3کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں کوئی بھی پاکستانی نہیں ۔

https://p.dw.com/p/GXfR
پاکستانی وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانیتصویر: AP

غالباً اسی سبب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس حوالے سے اپنے ردعمل میں اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری طاقت ہے اور یہ بات امریکہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔

منگل کے روز ایک تقریب میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان میں ڈاکٹر قدیر کا باب بند ہو چکا ہے ۔ دوسری طرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دوئچے ویلے کے ساتھ ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں اس معاملے پرتبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے ہی اس معاملے پر بہت کچھ کہہ چکے ہیں اور اب اس حوالے سے مزید بات نہیں کریں گے۔ ادھر تجزیہ نگاروں کا بھی یہ ماننا ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کا نیٹ ورک اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور نئی امریکی پابندیوں کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔

Abdul Qadeer Khan
ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدلقدیر خانتصویر: picture-alliance/dpa

اس بارے میں دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر(ر) شوکت قادر کا کہنا ہے کہ نئی امریکی پابندیوں کا مقصد دیگر ممالک اور افراد کو جوہری پھیلاؤ سے ہوشیار رکھنے کی ایک کڑی ہے۔

خیال رہے کہ 2004ء میں ڈاکٹر قدیر خان کی طرف سے جوہری پھیلاؤ میں ملوث ہونے کے اعتراف کے بعد اس وقت کے آرمی چیف اور صدر جنرل پرویز مشرف نے انہیں گھر پر نظر بند کر دیا تھا اور چار سال گزرنے کے بعد بھی ڈاکٹر قدیر اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر بدستور نظربند ہیں تاہم ان کی اہلیہ ہنی خان اور ان کے وکیل بیرسٹر اقبال جعفری نے ڈاکٹر قدیر کو حبس بے جاء میں رکھنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے جس کی سماعت جاری ہے ۔

مبصرین کے خیال میں پاکستان کے مقتدر حلقے موجودہ ملکی و بین الاقوامی صورتحال کے تناظر میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دینے کے حق میں نہیں اور اس موقع پر یہ بھی واضح نہیں کہ 70 سالہ ایٹمی سائنسدان اب اپنی باقی کی زندگی یونہی گزاریں گے یا انہیں کبھی آزادی بھی نصیب ہو سکے گی ۔