1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈاکٹر قدیر خان کی رہائی

امتیاز گل ، اسلام آباد6 فروری 2009

عدالت سے باہر طے پانے والے خفیہ معاہدے کے تحت ڈاکٹر قدیر خان کو تقریباً چار سال بعد کم از کم عدالت نے ضرور آزاد شہری قرار دے دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Goir
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خانتصویر: AP

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بیرسٹر علی ظفر ایڈووکیٹ کی درخواست کی بنیاد پر اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حکومت اور ڈاکٹر خان کے وکیلوں نے جس دستاویز پر دستخط کیے ہیں اور جس بنیاد پر ان کی نظر بندی کو چیلنج کرنے والی درخواست خارج کی جا رہی ہے اس کے مندرجات پبلک نہیں کئے جائیں گے۔

عدالت نے حکومت کو ڈاکٹر قدیر خان کے لئے خصوصی سیکورٹی انتظامات کرنے، علاج معالجہ کے لئے آزادانہ نقل و حرکت اور عزیز و اقارب سے ملنے کی اجازت دینے کی بھی ہدایت کی ہے۔ عدالت کے حکم کے بعد اپنی رہائش گاہ کے باہر ذرائع ابلاغ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر قدیر خان نے کہا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف فی الوقت کسی عدالتی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

’’زرداری صاحب کو انہوں نے آٹھ سال قید میں رکھا، بعض اوقات آپ کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور حالات کو قبول کرنا پڑتا ہے نوازشریف صاحب آٹھ سال باہر رہے، انہوں نے کوئی قانونی دعوی کیا؟ انہوں نے کوئی جواب مانگا؟ ۔‘‘

دوسری طرف تجزیہ نگاروں کے خیال میں ڈاکٹر قدیر خان کی رہائی موجودہ حکومت کے لئے ایک کڑا امتحان تھا۔ اسی طرح اب ان کی حفاظت بھی ایک بڑا چیلنج ہو گی اس حوالے سے معروف تجزیہ نگار شفقت محمود نے بتایا ’’سیکورٹی کا مسئلہ تو ان کا ہے کیونکہ دنیا میں ڈاکٹر قدیر خان کا نام ایک بڑی متنازعہ شخصیت کے طور پر لیا جاتا ہے اور بہت سارے ایسے ایشوز ہیں جن پر ان کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے لیکن عدالت کا فیصلہ ہے تو اسے سب کو تسلیم کرنا چاہئے ۔‘‘

مبصرین کے خیال میں ڈاکٹر قدیر خان کی متنازعہ نظر بندی کا خاتمہ پاکستان کے اندر تو کسی حد تک اطمینان بخش ہو سکتا ہے تاہم ان کے متنازعہ ماضی کے سبب حکومت کو تنقید کا سامنا کرتے رہنا ہو گا اور اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ کے انتہائی زیر اثر انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی اس حوالے سے کیا موقف اختیارکرتی ہے کیونکہ ایجنسی کو اگرچہ کسی بھی فرد سے تفتیش کا اختیار حاصل نہیں ہے اس کے باوجود یہ بین الاقوامی ادارہ ڈاکٹر قدیر خان تک تفتیش کی غرض سے رسائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔