1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈارک مَیٹر کا وجود ثابت ہونے کا امکان

17 مارچ 2010

سائنسدانوں کو امید ہے کہ مارچ کے آخر میں یورپی ریسرچ سنٹر سرن CERN میں کئے جانے والے ایک تجربے میں ڈارک میٹر کی موجودگی ثابت ہوسکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/MUw7
تصویر: picture alliance/dpa

ایک سائنسی مفروضہ ہے کہ کائنات کا 25 فیصد Dark Matter یعنی سیاہ مادے پر مشتمل ہے۔ مگر سائنسدانوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک اس فرضی مادے کی تصدیق ممکن نہیں ہوئی۔ تاہم محققین کے مطابق اب یہ کامیابی تخلیق کائنات سے متعلق ایک اور نظریے بگ بینگ جیسے حالات پیدا کرنے کے لئے کئے جانے والے تجربے کے دوران ممکن ہوسکتی ہے۔

Forschungszentrum Cern: Generaldirektor Rolf-Dieter Heuer
CERN ریسرچ سنٹر کے جرمن سربراہ رالف ڈیٹر ہوئر کے مطابق لارج ہاڈران کولائیڈر میں ایٹمی ذرات کو ٹکرا کر ابتداء کائنات سے متعلق مفروضے بِگ بینگ جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔تصویر: picture alliance/dpa

CERN ریسرچ سنٹر کے جرمن سربراہ رالف ڈیٹر ہوئر Rolf-Dieter Heuer نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ لارج ہاڈران کولائیڈر میں ایٹمی ذرات کو ٹکرا کر ابتداء کائنات سے متعلق مفروضے بِگ بینگ جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جو کہ قریب 13.7 بلین برس قبل وقوع پزیر ہوا تھا۔ ہوئر کے مطابق اسی دوران ممکن ہے کہ Dark Matter کے وجود کے بارے میں بھی کوئی ٹھوس حقیقت سامنے آجائے۔

سوئٹزر لینڈ اور فرانس کی سرحد پر واقع یورپین آرگنائزیشن فار نیوکلیئر ریسرچ CERN کے ڈائریکٹر جنرل رالف ڈیٹر ہوئر کے مطابق ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ سیاہ مادہ دراصل ہے کیا؟ انہوں نے مزید کہا کہ ایٹمی ذرات ٹکرانے کے لئے ریسرچ سنٹر میں قائم دنیا کا سب سے بڑا پارٹیکل کولائیڈر، لارج ہاڈران کولائیڈر تاریخ انسانی کی وہ پہلی مشین ہوسکتی ہے جس کے ذریعے سیاہ مادے اور ڈارک یونیورس یعنی سیاہ کائنات کے بارے میں کوئی سراغ ملے۔ ہوئر کے مطابق گویا ایک نئی طبیعات اور دریافتوں کے ایک نئے دور کی ابتدا ہوگی۔

18.07.2008 dw tv projekt zukunft cern 7
سائنسی مفروضہ ہے کہ کائنات کا 25 فیصد Dark Matter یعنی سیاہ مادے پر مشتمل ہے۔تصویر: DW-TV

ماہرین طبیعات اور فلکیات کے مطابق ابھی تک صرف کائنات کے پانچ فیصد حصے کے بارے میں معلومات دستیاب ہیں۔ مزید یہ کہ بقیہ 95 فیصد دراصل فرضی ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی پر مشتمل ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ بالترتیب کائنات کا 25 فیصد اور 70 فیصد ہے۔

ہوئر کے مطابق اگر مارچ کے اختتام میں کئے جانے والے تجربے میں ڈارک میٹر کے بارے میں کوئی سراغ مل جاتا ہے تو کائنات کے حوالے سے انسانی علم بڑھ کر اس کے 30 فیصد تک پہنچ جائے گا جو کہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہوگی۔

یورپی ریسرچ سنٹر CERN میں قائم لارج ہاڈران کولائیڈر LHC دراصل زیر زمین بیضوی سرنگ کی صورت میں بنایا گیا ہے جس کی کل لمبائی 27 کلومیٹر ہے، اور فرانس اور سوئٹزر لینڈ کے مشترکہ بارڈر کے نیچے موجود ہے۔ LHC میں مارچ کے آخر میں کئے جانے والے تجربے میں اب تک کی سب سے زیادہ توانائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ سائنسدانوں کے مطابق مخصوص ایٹمی ذرات کے تصادم کے ذریعے مجموعی طور پر سات ٹیرا الیکٹران وولٹ توانائی حاصل ہوگی۔ اور ان میں سے ہر تصادم دراصل ایک مِنی بگ بینگ ہوگا۔

Schweiz Physik Forschung CERN Teilchenbeschleuniger
LHC کی تعمیر کا ایک بڑا مقصد ان فرضی ذرات کی تلاش ہے جو بگ بینگ کے نتیجے میں مادے کو حجم دینے کا باعث بنے۔تصویر: AP

اس تجربے کے دوران جو ڈیٹا حاصل ہوگا اُس کا اس لیبارٹری اور دنیا بھر میں موجود ہزاروں سائنسدان تجزیہ کریں گے۔ LHC کی تعمیر کا ایک بڑا مقصد ان فرضی ذرات کی تلاش ہے جو بگ بینگ کے نتیجے میں مادے کو حجم دینے کا باعث بنے۔ اور پھر اس مادے سے ستارے اور سیارے وجود میں آئے۔ ان پراسرار ذرات کواسکاٹ لینڈ کے سائنسدان ہِگس بوسون Higgs Boson کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ جنہوں نے مادے کو حجم ملنے کے مفروضے کی تشریح کے لئے ان فرضی ذرات کا تصور پیش کیا تھا۔

CERN کے سربراہ رالف ڈیٹر ہوئرکے مطابق سائنسدان اس فرضی پارٹیکل کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں مگر جو نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ کیا یہ ذرات وجود بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟ ہوئر کے مطابق اگر ان ذرات کا وجود ثابت نہ ہوسکا تو ہمیں اس سے ملتے جُلتے کسی اور ذرے کی تلاش کرنا ہوگی۔

LHC میں سات ٹیرا لیکٹران وولٹ توانائی حاصل کرنے کے لئے جب تجربات شروع ہونگے تو یہ سال 2011ء تک جاری رہیں گے جس کے بعد یہ تقریباﹰ ایک برس کے لئے بند کردیا جائے گا۔ جو دراصل ان تیاریوں کا حصہ ہوگا جو 14 ٹیرا الیکٹران وولٹ توانائی حاصل کرنے کے لئے تجربات کی تیاری کے لئے ہوگا۔

رپورٹ : افسر اعوان

ادارت : عابد حسین