1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین: کم عمر کے ساتھ سیکس ’’ریپ‘‘

عدنان اسحاق22 اکتوبر 2015

چین میں کم عمروں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کو آئندہ سے آبروریزی سمجھا جائے گا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بیجنگ حکومت کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔ ماہرین قانون کو مزید واضح کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GsXR
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق بیجنگ حکومت کی جانب سے منظور کیے جانے والے نئے قانون میں ایسی پیچیدگیاں موجود ہیں، جو مجرموں کو بچوں کے ساتھ جنسی روابط قائم کرنے سے روک نہیں سکیں گی۔ یہ بات ہے 2009ء کی جب چینی صوبے سیچوان کے محکمہ انکم ٹیکس کے ایک اہلکار نے ایک کنواری دوشیزہ کے ساتھ تقریباً ایک ہزار ڈالر کے عوض جنسی رابطہ قائم کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں اس نے پولیس کو بیان دیا کہ اسے علم نہیں تھا کہ لڑکی کی عمر تیرہ برس تھی۔ پھر عدالت نے اسے صرف پانچ ہزار یوآن یعنی تقریباً سات سو ڈالر کا جرمانہ کیا اور وہ آزاد ہو گیا۔ سیچوان کی پولیس کا کہنا ہے کسی کم عمر کے ساتھ سیکس کرنا اس وقت تک کوئی جرم نہیں ہے جب تک مرد کو لڑکی کا عمر کا علم نہ ہو اور یہ رابطہ باہمی رضامندی سے قائم کیا گیا ہو۔

Viagra Verkauf in China
تصویر: AP

اس واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد شہری حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور یہ سماجی ویب سائٹ پر موضوع بحث بن گیا۔ انسانی حقوق کے وکیل لو ژیاؤیوآن کے مطابق، ’’ان میں سے زیادہ تر مڈل اسکول کے طلبہ ہوتے ہیں اور یہ جسم فروش نہیں بلکہ یہ خود شکار ہوتے ہیں‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ بہت سی لڑکیاں شرمندگی کی وجہ سے پولیس سے رابطہ نہیں کرتیں اور کچھ غربت کی وجہ سے یہ کام کرنے پر راضی ہو جاتی ہیں۔

لو اور دیگر انسانی حقوق کے کارکنوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی روابط قائم کرنے کو’’ آبروریزی‘‘ قرار دے۔ اس کے بعد اگست میں عوامی نیشنل کانگریس نے بھی لو کی اس تجویز کو منظور کر دیا۔ پہلے اس جرم کی سزا 15 سال تک کی قید تھی تاہم اب جرم ثابت ہونے پر مجرم کو زندگی سلاخوں کے پیچھے گزارنی پڑے گی۔

چین میں کم عمری کی دو مختلف وضاحتیں ہیں۔ ایک وہ جن کی عمر 14 سال سے کم ہے جبکہ دوسرا وہ جن کی عمر 14 سے 17 سال کے درمیان ہے۔ اس وجہ سے موجود قانون صرف انہی لڑکیوں پر لاگو ہو گا، جن کی عمر 14 برس سے کم ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیکس انڈسٹری سے وابستہ افراد قانون میں موجود اسی سقم کا فائدہ اٹھائیں گے۔ چین میں ایسے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، جن سے سیکس انڈسٹری سے وابستہ بچوں کی اصل تعداد کا علم ہو۔ تاہم 2011ء میں پولیس نے بتایا تھا کہ انہوں نے 24 ہزار خواتین اور بچوں کو بازیاب کرایا تھا، جن میں سے ایک بڑی تعداد سے زبردستی جسم فروشی کروائی جاتی تھی۔