1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چيک جمہوریہ: جيلوں ميں پناہ گزينوں کے ساتھ ابتر سلوک

عاصم سليم18 اکتوبر 2015

چيک جمہوریہ ميں غير قانونی انداز سے سرحد عبور کرنے والوں کو کچھ عرصے کے ليے زير حراست لے ليا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظيميں اس عمل کے خلاف ہيں اور جيلوں کے حالات سے بھی مطمئن نہيں۔

https://p.dw.com/p/1Gq4j
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Murat

گزشتہ ماہ جب ايک اسمگلر کی گاڑی ميں دو شامی نوجوان پناہ گزينوں نے سلوواکيہ اور چيک ری پبلک کی سرحد پار کر کے چیک جمہوریہ ميں قدم رکھا تو انہيں ايسا لگا کہ جرمنی پہنچنے کے ليے سفر اپنے اختتام کو ہے۔ اس کے برعکس بچپن کے ان ساتھيوں کو چھ ہفتوں کے ليے حراست ميں لے ليا گيا، جس دوران انہيں قانونی مشاورت، مترجم اور اپنے اہل خانہ سے بذريعہ ٹيلی فون رابطہ کرنے کی سہوليات بس شاذ و نادر ہی دستياب رہيں۔

ان ميں ايک لڑکے رميز نے بتايا، ’’پوليس اہلکار ہميں ہتھکڑياں پہنا کر زير زمين کسی پوليس اسٹيشن لے گئے۔‘‘ رميز کے بقول اس وقت پوليس اہلکاروں نے ان سے کہا کہ وہ چيک ری پبلک ويزے کے بغير آئے ہيں اور کچھ گھنٹوں ميں انہيں رہا کر ديا جائے گا۔ البتہ وہ کچھ گھنٹے چاليس دن ثابت ہوئے۔

چيک حکام کی جانب سے اميگريشن کے سخت قوانين کے نتيجے ميں کئی سو مہاجرين کچھ ايسے ہی تجربات سے گزر چکے ہيں۔ سخت قوانين پر عملدرآمد کی وجہ سے چيک ری پبلک کا شمار سلوواکيہ، ہنگری اور رومانيہ کی طرح ايسے ملکوں کی فہرست ميں ہوتا ہے جو جرمنی جيسے مقابلتاً نرم پاليسيوں کے حامل ممالک کے مد مقابل کھڑے ہيں۔

چيک ری پبلک ميں انسانی حقوق سےمنسلک محکمے کی ايک اہلکار کے مطابق جن حالات ميں مہاجرين کو زير حراست رکھا جا رہا ہے، وہ قيد خانے سے بھی بد تر ہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ چيک جمہوریہ بلقان ممالک سے جرمنی پہنچنے کے ليے مہاجرين کے زير استعمال مرکزی راستے کے شمال ميں واقع ہے اور اسی ليے وہاں سے زيادہ مہاجرين نہيں گزرتے۔

طويل عرصے تک حراست ميں رکھنے کے بعد ملک چھوڑنے کے احکامات دے کر مہاجرين کو رہا کر ديا جاتا ہے، جس سے اس سخت پاليسی کے حقيقی مقصد پر بھی سواليہ نشان لگ جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے ليے سرگرم گروپوں کے مطابق ممکن ہے کہ يہ سخت رويہ دانستہ طور پر اختيار کيا جاتا ہے تاکہ مہاجرين مغربی يورپی ممالک پہنچنے کے ليے چيک ری پبلک سے گزرنے والا راستہ استعمال ميں نہ لائيں۔

چيک ری پبلک کے مشرقی حصے ميں Vysni Lhoty نامی مقام سے رہائی پانے کے بعد رميز نے نيوز ايجنسی روئٹرز سے بات چيت کرتے ہوئے پوچھا، ’’ديگر ملکوں ميں پوليس نے ہماری مدد کی۔ چيک پوليس اس طرح کا رويہ کيوں اختيار کرتی ہے؟‘‘ اس نے بتايا کہ پوليس نے اس کے اور اس کے ساتھی کے موبائل فون اور ان کے پاس موجود رقم ضبط کر لی اور بعد ازاں حکام نے بستر اور ديگر سہوليات کے ليے دس يورو فی دن کا معاوضہ بھی ليا۔

Europa Grenze Ungarn Serbien Flüchtlinge Migranten Ankunft Menschenmenge
تصویر: Reuters/L. Foeger

چيک وزير داخلہ Milan Chovanec نے اس پاليسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ملکی قانون پوليس اہلکاروں کو پابند کرتا ہے کہ وہ غير قانونی انداز ميں آنے والوں کو گرفتار کريں۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’ہميں اجنبيوں سے خوف نہيں۔ آپ کو يہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن لوگوں کو حراست ميں ليا جاتا ہے، وہ وہ لوگ ہوتے ہيں جو قانون توڑتے ہيں۔‘‘ چيک وزير داخلہ نے مزيد وضاحت کی کہ متاثرين کو زيادہ دير حراست ميں نہيں رکھا جاتا اور يورپی قوانين کے تحت قريب ترين ملک منتقل کر ديا جاتا ہے۔ ان کے بقول آسٹريا سے آنے والوں کو صرف سات دن ميں واپس بھيج ديا جاتا ہے اور چونکہ يونان اور ہنگری مہاجرين کو دوبارہ نہيں ليتے اسی ليے وہاں سے آنے والوں کو چاليس دن تک رکھا جاتا ہے۔ امدادی کارکنان کا کہنا ہے کہ کچھ مہاجرين کو اس سے بھی زيادہ عرصے کے ليے رکھا جاتا ہے کيونکہ قانوناً انہيں نوے دن تک زير حراست رکھا جا سکتا ہے۔

چيک ری پبلک ميں انسانی حقوق کی پبلک ڈيفنڈر Anna Sabatova نے اگست اور اکتوبر ميں حراستی مراکز کا دورہ کر کے اپنی رپورٹ پيش کی۔ وہ کہتی ہيں کہ پريشان کن بات يہ ہے کہ زير حراست ليے جانے والوں کو يہ تک معلوم نہيں ہوتا کہ وہ ہيں کہاں، کتنی دير کے ليے اور ان کی قانونی حيثيت کيا ہے۔ ان کے بقول کئی مقامات پر حالات جيلوں سے بھی بد تر ہيں۔

يہ امر اہم ہے کہ چيک ری پبلک ميں سياسی پناہ کے ليے رواں برس صرف 1,115 افراد نے درخواست جمع کرائی، جن ميں سے نصف سے زائد تعداد يوکرائنی شہريوں کی ہے جبکہ شامی شہريوں کی کُل تعداد 73 ہے۔

چيک ری پبلک کی کُل آبادی 10.5 ملين ہے، جن ميں نصف ملين غير ملکی شامل ہيں اور مسلمانوں کا تناسب نہ ہونے کی برابر ہی ہے۔ پراگ حکومت سلوواکيہ، ہنگری اور رومانيہ کی طرز پر مہاجرين کی کسی کوٹے کے تحت يورپی يونين کے رکن ممالک ميں تقسيم کے خلاف ہے۔