1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چرچ آف انگلینڈ اور خواتین کو بشپ بنانے کا متنازعہ موضوع

Qurratulain Zaman3 ستمبر 2008

چرچ آف انگلینڈ نےایک بحث کے بعد خواتین کو بشپ بنانے کے حق میں فیصلے دیا ہے۔ چرچ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے کےلئے ایک جامع ضابطہ اخلاق بنایا جائے گا جس کے تحت خواتین کوبشپ بنانا ممکن ہو گا۔

https://p.dw.com/p/EdSP
تصویر: AP

چرچ آف انگلینڈ میں موجود روایت پسند دھڑوں کی جانب سے اس فیصلے کی پرزور مذمت کی گئی ہے اور خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس فیصلے سے چرچ دو دھڑوں میں تقسیم ہوسکتا ہے۔ خواتین کو کلیسا کی قیادت کا اختیار: یعنی بشپ بنائے جانے کا فیصلہ چرچ آف انگلینڈ کے لئے متنازعہ ہے۔ کیا خواتین کو وہ اختیار یا اقتدار دینا جس پر آج تک صرف مرد ہی فائز رہے ہوں ممکن ہے اور کیا عیسائیت میں یہ جائز بھی ہیے کہ نہیں۔ ایسے ہی کئی کڑے سوالات چرچ آف انگلینڈ کی پارلیمان کے اجلاس میں اٹھائے گئے۔ اہل کلیسا کا یہ مشاورتی اجلاس گھنٹوں جاری رہا ۔اہل کلیسا کے نمائندگان کا یہ کہنا تھا کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ کرنےکے لئیے ایک مشترکہ موقف اپنانے کی ضرورت ہے اور ایک ایسے ہی جامع موقف کے لئے اہل کلیسا کو یہ حق دیا گیا کہ وہ اس فیصلے کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ دے کر اپنی رائے کا اظہار کریں۔ اس اجتماع میں اینگلیکن چرچ کے اندر مختلف سطح کے عہدیداران نے اکثریت کے ساتھ اس فیصلے کے حق میں ووٹ دئیے ۔

Canterbury Erzbischof und die Scharia
تصویر: AP


Mandy Hodgson لندن میں St. Leonard Church کی ریکٹر یعنی انتظامی امور کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے نزدیک یہ فیصلہ انصاف کی بنیاد پر کیا گیا ہے:’’چرچ کی ہمیشہ سے یہ ذمہ داری رھی ہے کہ وہ معاشرے کو اس دور کے تقاضوں کے مطابق طور طریقے سکھائے، جس میں وہ معاشرہ رہ رہا ہو۔ میرے خیال میں خدا مذہبی کتابوں اور حضرت عیسی کے ذریعے ہر نسل سے نئے سرے سے مخاطب ہوتا ہے۔ ہمیں ہر نئے زمانے میں مذہبی پیغام کی نئے سرے سے تشریح کرنی چاہئیے ۔ چرچ آف انگلینڈ یہی کچھ کر رہا ہے۔‘‘

روایت پسند دھڑوں کی تجاویز: چرچ آف انگلینڈ کے روایت پسند حلقوں کی جانب سے اس اجلاس میں چند تجاویز پیش کی گئیں جنہیں مسترد کر دیا گیا۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ جو علاقےخواتین بشپس کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے وہاں مذہبی اجتماع کی قیادت کے لسے سپر بشپ سے رجوع کیا جائے۔ دوسری یہ کہ چرچ کے ایسے حلقے جو خواتین کو بشپ بنانے کے خلاف ہیں وہاں چرچ کی جانب سے ایک نیا حلقہ بنا دیا جائے۔ چرچ نے ان لوگوں کو یقین دہانی کروائی کہ وہ کوئی حل ڈھونڈیں گےلیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ حل کیا ہوگا۔

روایت پسندوں کا کہنا ہے کہ عیسائیت کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ یا مثال نہیں ملتی جس پر عمل کرتے ہوئے خواتین کو بشپ بننے کاحق دیا جاسکے ۔ علاوہ ازیں ان کا یہ موقف ہے کہ حضرت عیسی جب پیغمبر بنے تو ان کے بارہ قریبی ساتھی مرد تھے۔ روایتی عیسائی مذہب بارہ حواریوں سے منسوب ہے۔ Beverlyکے لارڈ پادری Martyn Jarrett کا کہنا ہے ، کہ اگر چرچ آف انگلینڈ یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہمیں خواتین کے ساتھ کام کرنے کی بجائے ان کی قیادت میں کام کرنا ہوگا اور خاتون بشپ کو تسلیم کرنا ہوگا تو پھر یہ فیصلہ ہم میں سے زیادہ تر کے لئیے نا ممکن ہوگا۔‘‘

لیکن ریکٹر مینڈی ہوگسن کہتی ہیں کہ وہ اس فیصلے پر خوش ہیں:’’ انہوں نے کہا کہ انہیں شعوری طور پر یہ اعتماد تھا کہ انہیں چرچ اورمنسٹری میں قابل احترام اور قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ انہیں ہمیشہ ایسا محسوس نہیں ہوا کرتا تھا۔ میں گیارہ بارہ برس پہلے پریسٹ بنی تھیں۔ مجھے بہت اچھا محسوس ہوتا ہے کہ پہلے چرچ نے خواتین کو مذہبی منسٹری میں کام کرنے کی اجازت دی اور اب ان کو دوسرے کاموں کا اہل سمجھ رہا ہے۔‘‘

Nonnen protestieren gegen Stripteasebar
تصویر: picture-alliance/dpa

1994 میں چرچ آف انگلینڈ کی جانب سے خواتین کو priest بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی روایت پسند وں نے چرچ کے فیصلےکو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ خواتین کو بشپ کے عہدے پر فائز کرنے کا فیصلہ اسی فیصلے کی ایک کڑی ہے اور جو شاید چرچ آف انگلینڈ میں ایک دراڑ ڈالنے کا سبب بن سکتی ہے۔ ایک ہزار سے زائد پادریوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر چرچ خواتین کو بشپ بنانے کے فیصلے پر عمل درآمد کرے گا اور انہیں خواتین بشپ کی قیادت میں کام کرنا پڑا تو وہ چرچ کو خیر باد کہہ دیں گے ۔

چرچ آف انگلینڈ اینگلیکن چرچ کا حصہ ہے۔ اینگلیکن چرچ سے تعلق رکھنے والے بشپس کی Lambeth کانفرنس کا آغاز 16 جولائی کو ہو چکا ہے۔ یہ کانفرنس ہر دس سال میں ایک مرتبہ ہوتی ہے۔ اس کانفرنس کو پہلے ہی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ قدامت پسند اینگلیکنز کی جانب سےانہیں چرچ سے غداری کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے ۔ حال ہی میں امریکہ میں ہم جنس پرست کو بشپ کے عہدے پر تسلیم کرنے کے باعث چرچ میں موجود بہت سے قدامت پسند حلقے ناراض ہیں اور اب اُنہیں خواتین کو بشپ بنائے جانے کے فیصلے پر بھی بات چیت کرنی ہے۔