1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چاقو کے درجنوں  وار سہنے والی بہادر خدیجہ

بینش جاوید
18 جولائی 2017

گزشتہ برس خدیجہ کو اس کے ایک کلاس فیلو نے دن دھاڑے چاقو سے کئی مرتبہ وار کر کے مبینہ طور پر قتل کرنے کی کوشش کی۔ وہ  اس حملے میں بچ گئی اور اس نے اس شخص کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔

https://p.dw.com/p/2gi8X
Khadija Siddiqui
تصویر: Privat

گزشتہ برس 3 مئی کو لاہور کی رہائشی خدیجہ صدیقی اپنی چھوٹی بہن کو اسکول سے لینے  گئی۔ جب وہ اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ رہی تھی تو ایک شخص نے اس کی پیٹھ پر چاقو سے وار  کیا۔  خدیجہ کے  ڈرائیور نے اسے اور اس کی چھوٹی بہن کو بچانے کی کوشش کی۔ اسی اثناء میں اس شخص کا ہیلمٹ گاڑی میں گر گیا اور خدیجہ  اس کے ڈرائیور اور چھوٹی بہن نے اس شخص کو پہچان لیا۔ یہ شخص مقامی لاء کالج میں خدیجہ کا کلاس فیلو تھا۔

خدیجہ اور اس شخص کی 2014 سے 2015 تک دوستی تھی اور پھر ان کی دوستی ختم ہوگئی۔ ایک سال تک خدیجہ اور خدیجہ کے حملہ آور نے آپس میں کوئی بات چیت نہیں کی اور پھر اچانک ایک روز یہ واقعہ پیش آ گیا۔ خدیجہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بتایا،’’ مجھ پر حملہ کرنے والے شخص کے والد بھی ایک وکیل ہیں۔ جب تک میں نے میڈیا کو اپنی کہانی نہیں سنائی تھی  تب تک میرا کیس بہت سست روی کا شکار تھا۔ میرے کیس کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے میرے کیس کا نوٹس لیا اور پھر اس کیس کی باقاعدہ سماعتوں کا آغاز ہوا۔‘‘

Khadija Siddiqui
سبز لباس میں ملبوس خدیجہ اپنی وکلاء کی ٹیم کے ساتھ کھڑی ہےتصویر: Privat

خدیجہ کہتی ہیں کہ اب کیس چل رہا ہے اور توقع ہے کہ جلد کوئی فیصلہ سنایا جائے گا۔ خدیجہ کا کہنا ہے کہ میرے والدین نے میری بہت مدد کی۔  خدیجہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میرے والدین نے مجھے خون  میں لت پت  دیکھا۔ میرے زخمی جسم پر دو سو ٹانکے لگے۔ خون کی کئی بوتلیں لگیں، یہ سب کچھ میرے والدین نے دیکھا۔ اور اس سارے وقت میں میرے والدین نے میرا بہت زیادہ ساتھ دیا۔‘‘

خدیجہ  کا کہنا ہے،’’ عدالت میں سماعتوں کے دوران مجھ پر حملہ کرنے والے شخص کے وکلاء  کا مجھ پر الزام یہ ہوتا ہے کہ  میرا کردار اچھا نہیں ہے، میں بد کردار ہوں میری تصویریں دکھائی جاتی ہیں کہ میں اس کے ساتھ بیٹھی ہوں۔‘‘

خدیجہ کے کیس کے بارے میں تفصیلات کئی اخباروں میں شائع ہو چکی ہیں اور وہ کئی ٹی وی پروگراموں میں بھی اپنی کہانی بیان کر چکی ہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق آج بھی پاکستانی عدالتی نطام میں عورتوں کو اپنے مخالفین کی جانب سے انتہائی ذلت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سماجی مسائل پر گہری نظر رکھنے والی ایک تجزیہ کار عائشہ سروری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا،'' پاکستان میں وکلاء کا بھی ایک مافیا ہے جو نہیں چاہتے ہیں کہ لوگوں کو انصاف ملے اور جو چاہتے ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں مرد با آسانی  بے گناہ قرار پا جائیں۔‘‘ عائشہ کہتی ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور اگر وکلاء بھی ایسے معاملات میں مجروموں کا ساتھ دیں تو عورتوں کے لیے عدالت تک پہنچنا اور مشکل ہو جاتا ہے۔ خدیجہ نے بہادری کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔‘‘

’پاکستانی خواتین کو کس کس طرح کے خوف‘

 خدیجہ کا کہنا ہے،’’ اب مجھے انصاف کا انتظار ہے۔  اس کیس سے ایک مثال قائم ہو گی کہ عورت حوصلے اور ہمت سے اپنے حق کے لیے لڑ سکتی ہے۔ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایک عورت کی زندگی لینے کی کوشش کرے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید