1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پچھلے سال ايک ملين يورپ گئے تھے، تو اس سال دو ملين جائيں گے

عاصم سليم15 فروری 2016

ترکی ميں دو ملين سے زائد شامی مہاجرين پناہ ليے ہوئے ہيں تاہم ملازمت کی اجازت نہ ہونے کے سبب ان کی اکثريت مشکلات سے دوچار ہے۔ ماہرين کا ماننا ہے کہ اگر حالات نہيں بدلے، تو مہاجرين کی يورپ ہجرت کا سلسلہ نہيں رک سکے گا۔

https://p.dw.com/p/1Hvko
تصویر: Imago/Zuma

منصور العيسیٰ درجنوں ديگر شامی پناہ گزينوں کے ہمراہ ترک شہر غازی انتيپ ميں سڑک کنارے، کوڑے کے ڈھير پر بيٹھ جاتا ہے کہ شايد کوئی کسی مزدور کی تلاش ميں وہاں سے گزرے اور اسے ايک دن کی روزی ہی مل جائے۔ اکثر اوقات اس کا اور روزگار کے منتظر ديگر تارکين وطن کا انتظار رائيگاں ہی جاتا ہے۔

چار بچوں کا والد العيسیٰ کہتا ہے، ’’جب کوئی گاڑی گزرتی ہے اور ہارن بجاتی ہے، تو ہم سب دوڑتے ہوئے جا کر يہ التجا کرتے ہيں کہ خواہ کچھ گھنٹوں کے ليے ہی سہی، ہميں کوئی کام دے دو۔‘‘ منصور العيسیٰ کا تعلق شامی شہر حلب سے ہے۔ وہ آج کل غازی انتيپ ميں رہتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ صورتحال انتہائی ’غير انسانی‘ ہے۔

اپنے آبائی ملک شام ميں وہ کسی وقت ايک تربيت يافتہ باورچی تھا اور ماضی ميں روس ميں بھی کام کرنے کا تجربہ رکھتا ہے۔ سن 2012ء ميں جب حلب ميں لڑائی بڑھی، تو اس نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ترکی جانے کا فيصلہ کيا، جہاں ان دنوں تقريباً 2.2 ملين پناہ گزين مقيم ہيں۔ ترکی ميں منصور العيسیٰ کو ملازمت کی اجازت نہيں اور اسی ليے وہ باقاعدہ نوکری کی جگہ ايسے کام تلاش کرتا ہے، جن کے ذريعے اسی فوری رقم مل سکے۔

Ägäisches Meer Türkei Flüchtlingsboot Rettungsaktion
تصویر: picture-alliance/AA/B. Akay

جنوری ميں انقرہ حکومت نے اعلان کيا تھا کہ نورپی يونين کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت شامی پناہ گزينوں کو ملازمت کی اجازت دی جائے گی۔ ليکن اس سلسلے ميں دستاويزی کارروائی کافی مشکل ہے۔ تاحال صرف تقريباً ساڑھے سات ہزار شامی تارکين وطن کو کام کرنے کی اجازت مل سکی ہے۔

امدادی تنظيموں کے ساتھ کام کرنے والے ايک شامی پناہ گزين عبدل الحادی کے مطابق ترکی ميں کسی شامی تارک وطن کو ملازمت کی اجازت اس وقت تک نہيں مل سکتی، جب تک کہ اس کے پاس ملازمت دينے والے کی طرف سے باقاعدہ دستاويز نہ ہو۔

منصور العيسیٰ کہتا ہے، ’’اگر يہاں چيزيں نہيں بدلتيں، تو ميں جرمنی جانا چاہتا ہوں۔ ليکن ميں قانونی طريقے سے جانا چاہتا ہوں، ويزا لے کر۔ ميں خود تو ايک کشتی لے کر چلا جاتا، ليکن ميرے بچے ہيں اور مجھے خوف ہے کہ وہ ڈوب نہ جائيں۔‘‘

ايک اسمگلر کے طور پر کام کرنے والے ايک شامی شہری محمد کے بقول اگر گزشتہ برس ايک ملين پناہ گزين يورپ گئے تھے، تو اس سال دو ملين جائيں گے۔ اس نے کہا، ’’ترکی ميں رہنا مشکل ہے يورپ ميں مستقبل روشن ہے۔‘‘