پچھلے سال ايک ملين يورپ گئے تھے، تو اس سال دو ملين جائيں گے
15 فروری 2016منصور العيسیٰ درجنوں ديگر شامی پناہ گزينوں کے ہمراہ ترک شہر غازی انتيپ ميں سڑک کنارے، کوڑے کے ڈھير پر بيٹھ جاتا ہے کہ شايد کوئی کسی مزدور کی تلاش ميں وہاں سے گزرے اور اسے ايک دن کی روزی ہی مل جائے۔ اکثر اوقات اس کا اور روزگار کے منتظر ديگر تارکين وطن کا انتظار رائيگاں ہی جاتا ہے۔
چار بچوں کا والد العيسیٰ کہتا ہے، ’’جب کوئی گاڑی گزرتی ہے اور ہارن بجاتی ہے، تو ہم سب دوڑتے ہوئے جا کر يہ التجا کرتے ہيں کہ خواہ کچھ گھنٹوں کے ليے ہی سہی، ہميں کوئی کام دے دو۔‘‘ منصور العيسیٰ کا تعلق شامی شہر حلب سے ہے۔ وہ آج کل غازی انتيپ ميں رہتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ صورتحال انتہائی ’غير انسانی‘ ہے۔
اپنے آبائی ملک شام ميں وہ کسی وقت ايک تربيت يافتہ باورچی تھا اور ماضی ميں روس ميں بھی کام کرنے کا تجربہ رکھتا ہے۔ سن 2012ء ميں جب حلب ميں لڑائی بڑھی، تو اس نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ترکی جانے کا فيصلہ کيا، جہاں ان دنوں تقريباً 2.2 ملين پناہ گزين مقيم ہيں۔ ترکی ميں منصور العيسیٰ کو ملازمت کی اجازت نہيں اور اسی ليے وہ باقاعدہ نوکری کی جگہ ايسے کام تلاش کرتا ہے، جن کے ذريعے اسی فوری رقم مل سکے۔
جنوری ميں انقرہ حکومت نے اعلان کيا تھا کہ نورپی يونين کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت شامی پناہ گزينوں کو ملازمت کی اجازت دی جائے گی۔ ليکن اس سلسلے ميں دستاويزی کارروائی کافی مشکل ہے۔ تاحال صرف تقريباً ساڑھے سات ہزار شامی تارکين وطن کو کام کرنے کی اجازت مل سکی ہے۔
امدادی تنظيموں کے ساتھ کام کرنے والے ايک شامی پناہ گزين عبدل الحادی کے مطابق ترکی ميں کسی شامی تارک وطن کو ملازمت کی اجازت اس وقت تک نہيں مل سکتی، جب تک کہ اس کے پاس ملازمت دينے والے کی طرف سے باقاعدہ دستاويز نہ ہو۔
منصور العيسیٰ کہتا ہے، ’’اگر يہاں چيزيں نہيں بدلتيں، تو ميں جرمنی جانا چاہتا ہوں۔ ليکن ميں قانونی طريقے سے جانا چاہتا ہوں، ويزا لے کر۔ ميں خود تو ايک کشتی لے کر چلا جاتا، ليکن ميرے بچے ہيں اور مجھے خوف ہے کہ وہ ڈوب نہ جائيں۔‘‘
ايک اسمگلر کے طور پر کام کرنے والے ايک شامی شہری محمد کے بقول اگر گزشتہ برس ايک ملين پناہ گزين يورپ گئے تھے، تو اس سال دو ملين جائيں گے۔ اس نے کہا، ’’ترکی ميں رہنا مشکل ہے يورپ ميں مستقبل روشن ہے۔‘‘