1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 پوپ فرانسس کی ٹرمپ سے ویٹیکن میں ملاقات

24 مئی 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تناؤ کی صورتحال میں ویٹیکن کا دورہ کیا ہے۔ ارب پتی ٹرمپ اور کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا ماضی میں سخت بیانات کے ذریعے ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2dVAF
Vatikan Donald Trump trifft Papst Franziskus
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L'Osservatore Romano

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے کے بعد پوپ فرانسس نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ٹرمپ امن کے آلہ کار بن سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے ویٹیکن کے اپنے اس دورے کو ایک اعزاز سے تعبیر کیا۔ ملاقات کے ابتدائی لمحات میں پوپ فرانسس انتہائی سنجیدہ دکھائی دیے تاہم بعد ازاں وہ کئی مرتبہ مسکرائے بھی۔ پوپ نے ٹرمپ سے اپنی نجی لائبریری کے احاطے میں ملاقات کی۔

امریکی صدر اور پوپ فرانسس کئی موضوعات پر ایک دوسرے سے اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ ان میں تحفظ ماحول، ہجرت، سرمایہ داری اور اسلام سے تعلقات سر فہرست ہیں۔ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ پوپ نے اس منصوبے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے میکسیکو کے اپنے دورے کے موقع پر کہا تھا،’’ ایک ایسا شخص جو پل تعمیر کرنے کی بجائے دیواریں تعمیر کرے، وہ کرسچن نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس کے جواب میں ٹرمپ نے کہا، ’’ اگر  اسلامک اسٹیٹ (داعش) نے ویٹیکن پر حملہ کیا، جو اس تنظیم کا ہدف بھی ہے۔ تو پوپ یہ خواہش اور دعا کریں گے کہ کاش ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہوتا۔‘‘

USA Trump Family beim Papst Gruppenfoto
تصویر: Reuters/A. Tarantino

ویٹیکن میں بات چیت شروع ہونے سے قبل جب تصاویر اتاری جا رہی تھیں تو پوپ زیادہ تر وقت زمین پر دیکھتے رہے جبکہ ٹرمپ کیمروں کی جانب دیکھ کر مسکراتے رہے۔ پوپ اور ٹرمپ کے مابین ہونے والی یہ پہلی ملاقات تقریباً تیس منٹ تک جاری رہی۔

ٹرمپ کے ساتھ ان کی اہلیہ میلانیا اور دختر ایوانکا کے علاوہ داماد جیرڈ کشنر، وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور قومی سلامتی کے مشیر ایچ میک ماسٹر بھی موجود تھے۔

ٹرمپ پوپ سے ملنے کے بعد اطالوی وزیر اعظم پاؤلو جینتیلونی اور سربراہ مملکت سرجیو ماتاریلا سے بھی ملیں گے۔ اس کے بعد وہ بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز روانہ ہو جائیں گے، جہاں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا سربراہی اجلاس ہو رہا ہے۔ ٹرمپ کی آمد کےموقع پر آج برسلز میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا اہتمام کیا گیا ہے۔