پندرہ سے انتیس سال کی عمر میں موت کی بڑی وجہ خودکشی
23 ستمبر 2015بدھ کے روز جاری کردہ ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خودکشی کرنے کی مشہور جگہوں پر ایک وسیع مطالعے کے بعد محققین نے پتہ چلایا ہے کہ اگر ایسی جگہوں پر تنبیہی نشانات لگائے جائیں یا وہا ں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے یا مدد مانگنے کے لیے ٹیلی فون نصب کر دیے جائیں تو اس سے بھی خودکشی کے واقعات میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق 15 تا 29 برس کی عمر کے افراد میں موت کی دوسری بڑی وجہ خودکشی ہے۔ دنیا بھر میں تقریبا ہر سال 8 لاکھ افراد خود کو مار دیتے ہیں۔
دنیا میں خودکشی کے حوالے سے سب سے بدنام جگہوں میں لندن کا ٹیوب سب وے، پیرس کا آئیفل ٹاور، سن فرانسسکو کا گولڈن گیٹ برج اور ٹورنٹو کا پرنس ایڈورڈ ویڈکٹ شامل ہیں۔
اس تحقیق کی قیادت کرنے والے آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف میلبورن کے جین پیرکس نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات مداخلت کرنا ’ کسی کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کا وقت دیتا ہے۔‘
اس ٹیم نے خودکشی کی روک تھام کے تین موثر حفاظتی اقدامات کا ایک منظم جائزہ لیا جیسا کہ خودکشی کی جگہ تک محدود رسائی، مدد کے متلاشی افراد کی حوصلہ افزائی اور اور تیسرے فریق کی طرف سے مداخلت۔
18 جائزوں سے یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ خودکشی کے دوران مداخلت کرنے سے خودکشیوں میں کمی آتی ہے۔ پچھلے سال یہ شرح پانچ اعشاریہ آٹھ تھی جو حفاظتی اقدامات کے بعد کم ہوکر صرف دو اعشاریہ چار رہ گئی ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خودکشی کرنے کے لیے جگہوں تک رسائی آسان ہے جیسے کہ عام طور پرعوامی مقامات جو کہ بعد میں خودکشی کے لیے شہرت حاصل کر لیتے ہیں۔ ان مقامات میں پل، اونچی عمارتیں، پہاڑیاں، ریلوے پٹریاں، الگ تھلگ مقامات یا جنگلی علاقہ شامل ہے۔
پیرکس نے مزید بتایا، ’ایسے مقامات پر خودکشی کی کوشش کرنا میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کردیتا ہے جس سے دوسرے لوگ بھی اس کی نقل کرتے ہیں۔‘