1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پندرہ سے انتیس سال کی عمر میں موت کی بڑی وجہ خودکشی

عاصمہ علی23 ستمبر 2015

اگر خودکشی کرنے کی مشہور جگہوں جیسا کہ پلوں، پہاڑوں اور ریلوے اسٹیشنز پر رکاوٹیں حائل کردی جائیں یا حفاظتی جالیاں لگادی جائیں تو اس سے خودکشی کے واقعات میں نوے فیصد تک کمی آسکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Gbm4
Amanda Todd Opfer von Cybermobbing Kanada 2012
تصویر: picture-alliance/dpa

بدھ کے روز جاری کردہ ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خودکشی کرنے کی مشہور جگہوں پر ایک وسیع مطالعے کے بعد محققین نے پتہ چلایا ہے کہ اگر ایسی جگہوں پر تنبیہی نشانات لگائے جائیں یا وہا ں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے یا مدد مانگنے کے لیے ٹیلی فون نصب کر دیے جائیں تو اس سے بھی خودکشی کے واقعات میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔

Dossierbild Symbol Depression Bild 3
نوجوانوں میں موت کی ایک اہم وجہ خودکشی ہےتصویر: fotolia/Kwest

عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق 15 تا 29 برس کی عمر کے افراد میں موت کی دوسری بڑی وجہ خودکشی ہے۔ دنیا بھر میں تقریبا ہر سال 8 لاکھ افراد خود کو مار دیتے ہیں۔

دنیا میں خودکشی کے حوالے سے سب سے بدنام جگہوں میں لندن کا ٹیوب سب وے، پیرس کا آئیفل ٹاور، سن فرانسسکو کا گولڈن گیٹ برج اور ٹورنٹو کا پرنس ایڈورڈ ویڈکٹ شامل ہیں۔

اس تحقیق کی قیادت کرنے والے آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف میلبورن کے جین پیرکس نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات مداخلت کرنا ’ کسی کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کا وقت دیتا ہے۔‘

اس ٹیم نے خودکشی کی روک تھام کے تین موثر حفاظتی اقدامات کا ایک منظم جائزہ لیا جیسا کہ خودکشی کی جگہ تک محدود رسائی، مدد کے متلاشی افراد کی حوصلہ افزائی اور اور تیسرے فریق کی طرف سے مداخلت۔

18 جائزوں سے یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ خودکشی کے دوران مداخلت کرنے سے خودکشیوں میں کمی آتی ہے۔ پچھلے سال یہ شرح پانچ اعشاریہ آٹھ تھی جو حفاظتی اقدامات کے بعد کم ہوکر صرف دو اعشاریہ چار رہ گئی ہے ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ خودکشی کرنے کے لیے جگہوں تک رسائی آسان ہے جیسے کہ عام طور پرعوامی مقامات جو کہ بعد میں خودکشی کے لیے شہرت حاصل کر لیتے ہیں۔ ان مقامات میں پل، اونچی عمارتیں، پہاڑیاں، ریلوے پٹریاں، الگ تھلگ مقامات یا جنگلی علاقہ شامل ہے۔

پیرکس نے مزید بتایا، ’ایسے مقامات پر خودکشی کی کوشش کرنا میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کردیتا ہے جس سے دوسرے لوگ بھی اس کی نقل کرتے ہیں۔‘