1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پرویز مشرف غداری مقدمے کی تفتیش دوبارہ ہو گی‘

شکور رحیم، اسلام آباد27 نومبر 2015

پاکستان میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی پر سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے اس مقدمے کی ازسر نو تفتیش کا حکم دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HDbY
Pakistan Pervez Musharraf Prozess ARCHIVBILD
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی پر سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے اس مقدمے کی ازسر نو تفتیش کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے ملزم پرویز مشرف کے وکلاء کی جانب سے غداری کے مقدمے کی نئے سرے سے تفتیش کے لئے خفیہ ایجنسیوں کے نمائندوں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی استدعا مسترد کر دی۔ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بنچ نے سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کی۔

عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس مقدمے کی از سر نو تحقیقات کا حکم دیا ہے ہے لہذا اب اس متعلق درج کرائی گئی حکومتی شکایت غیر مؤثر ہو گئی ہے۔ عدالت اس شکایت کو خارج کر دے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے مقدمے کی از سر نو تحقیقات کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم بھی دیا ہے۔ استغاثہ کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ حکومت ازسر نو تحقیقات کے لئے تیار ہے لیکن اس کی تحقیقات قانون کے مطابق ایف آئی اے ہی کو کرنے کا اختیار ہے۔

Pakistan Pervez Musharraf Prozess Anhänger protestieren
پرویز مشرف وطن واپسی کے بعد سے متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیںتصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اس معاملے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔جو چند گھنٹوں بعد خصوصی عدالت کے رجسٹرار اعظم خان نے پڑھ کر سنایا۔

عدالت کے مطابق، ’’ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام فریقین نے پہلی تفتیش کو ناقص اور نامکمل قرار دیتے ہوئے معاملے کی ازسر نو تفتیشں پر رضامندی ظاہر کی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق تمام ملزمان اور استغاثہ کے گواہان کے بیانات دوبارہ ریکارڈ کیے جائیں گے۔ سنگین غداری ایکٹ کے تحت اس مقدمے میں تفتیش کا اختیار صرف ایف آئی اے کو ہے۔ اس ضمن میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا ہائی کورٹ کا حکم حتمی نہیں۔‘‘

تفتیشی ٹیم پرویز مشرف اور شریک ملزمان سابق جسٹس عبدالحمید ڈوگر ، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اور سابق وزیر قانون زاہد حامد کے تازہ بیانات ریکارڈ کرے۔ عدالت نے اپنے حکم میں واضح کیا ہے کہ تفتیشی ٹیم نئے بیانات کی روشنی میں شریک ملزمان سے متعلق رائے قائم کرنے میں آزاد ہوگی۔ تفتیشی ٹیم کا کام ثبوت اکٹھے کر کے عدالت کے سامنے پیش کرنا ہے۔

حکم نامے کے مطابق تفتیشی ٹیم غداری کے مقدمے میں درج کرائی گئی شکایت کو مد نظر رکھتے ہوئے مبینہ جرم سے جڑی ہوئی شخصیات کے بیانات ریکارڈ کرے۔ خصوصی عدالت کے حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ تفتیشی ٹیم تحقیقات کے لیے اس مقدمے کی کارروائی میں پہلے سے موجود ریکارڈ کا جائزہ لینے کے لئے مکمل طور پر با اختیار ہوگی۔ ٹیم وفاقی حکومت کے سرکاری ریکارڈ اور بیانات ریکارڈ کرانے والے افراد کی طرف سے مہیا کی گئی کسی بھی دستاویز کا جائزہ لے سکے گی۔ ٹیم سچ کا تعین کرنے کے لئے اس معاملے سے متعلقہ ہر طرح کے مواد کا جائزہ لینے میں آزاد ہو گی۔

عدالت نے مقدمے کی سماعت سترہ اگست تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر تفتیشی رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر اس وقت تک تفتیشں مکمل نہ ہو تو پیش رفت رپورٹ جمع کرائی جائے۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک سال سے زائد عرصے تک بظاہر سرد خانے میں رہنے کے بعد یہ مقدمہ ایک بار پھر منظر عام پر آگیا ہے، جس سے سول اور فوجی قیادت کے درمیان تعلقات دوبارہ تناؤ کا شکار ہوسکتے ہیں۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹدیز کے سربراہ امتیاز گل کا کہنا ہے کہ تنہا پرویز مشرف کے خلاف تین نومبر کے اقدامات پر مقدمہ قائم کرنے سے یقیناﹰ سول اور فوجی تعلقات متاثر ہوئے تھے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’عام خیال یہی ہے کہ اس مقدمے کا مقصد صرف پرویز مشرف کو رسوا کرنا ہے ورنہ ان کا اصل اقدام تو اکتوبر انیس سو ننانوے میں حکومت کا تختہ الٹنا تھا لیکن نواز شریف کی حکومت نے اس معاملے پر کچہ نہیں کیا۔ تو اب بھی اگر حکومت اس مقدمے میں پرویز مشرف کو نشانہ بنانے کے لیے زور دے گی تو اس کا اثر سول فوجی تعلقات پر پڑے گا۔‘‘

خیال رہے کہ بعض حلقوں کے خیال میں اس وقت بھی فوج اور سول قیادت کے درمیان تعلقات زیادہ گرم جوشی پر مبنی نہیں۔ اس کا اظہار چند ہفتے قبل اس وقت ہوا تھا جب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لئے گڈ گورننس ضروری ہے۔ اس بیان کے بعد حکومت کی جانب سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔