1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک، افغان اور امریکہ مذاکرات

Christina Bergmann / شہاب احمد صدیقی27 فروری 2009

امريکہ کے خصوصی ايلچی رچرڈ ہال بروک نے جمعرات کو پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے ساتھ دو گھنٹے تک مذاکرات کئے۔ يہ تين فريقی مذاکرات افغانستان کے لئے امريکہ کی نئی حکمت عملی کا حصہ ہيں۔

https://p.dw.com/p/H2gm
پاکستانی اور افغان وزرائے خارجہ واشنگٹن میں مذاکرات کے دورانتصویر: AP

مذاکرات کے بارے ميں کسی قسم کی تفصيلات نہيں بتائی گئيں تاہم افغان وزير خارجہ رنگین اسپانتا نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات ميں ايک اچھی خبر يہ ہے کہ پاکستان کی نئی سول حکومت اور ہماری حکومت کے درميان اعتماد ہے، يہ ايک نئی تبديلی ہے۔

اسپانتا نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ قريبی تعاون کيا جائے گا اور يہ بات امريکہ کو بھی بتا دی گئی ہے۔ اس کے باوجود ان کا کہنا تھا کہ دنيا کے استحکام کو سب سے بڑا خطرہ افغانستان يا عراق سے نہيں بلکہ پاکستان سے لاحق ہے کيوں کہ اس کی آبادی زيادہ ہے اور اس کے پاس ايٹمی ہتھيار ہيں۔ افغان وزيرخارجہ نے کہا کہ اگر پاکستان ميں حکومت ناکام ہوتی ہے تو اس سے سب کو خاص طور سے وسط ايشياء کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہو گا۔

پاکستان کے بارے ميں امريکيوں کو بھی فکر ہے۔ رچرڈ ہال بروک نے تنقيد کی ہے کہ جنگ بندی کے بدلے سوات ميں طالبان کو شريعت کے نفاذ کی پيشکش کی گئی ہے۔ تاہم گذشتہ عرصے کے دوران افغان حکومت اور امريکيوں کے تعلقات ميں بھی کشيدگی پيدا ہوئی ہے۔ امريکی صدر اوباما نے افغان صدر پر تنقيد کی ہے کہ وہ ملک کی تعمير نو اور سلامتی کے لئے بہت کم کوشش کررہے ہيں۔ دوسری طرف افغان صدر حامد کرزائی نے امريکی فوجی حملوں کے دوران بڑی تعداد ميں شہريوں کی ہلاکت پر نکتہ چينی کی ہے۔