1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی کاروباری برادری کے لیے ’تاریک ترین‘ دور

15 جنوری 2023

کراچی کی بندرگاہ پر اشیائے خور و نوش، خام مال اور طبی آلات سے بھرے ہزاروں کنٹینر ملک میں زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے روک دیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4MDE7
Themenbild China & Wirtschaft | Shanghai, Hafen | Yangshan Deep Water Port
تصویر: Aly Song/REUTERS

پاکستان میں غیرملکی کرنسی ڈالر کی کمی کے باعث بینک درآمد کنندگان کے لیے 'کریڈٹ لیٹرز‘ جاری کرنے سے قاصر ہیں۔ ملکی معیشت پہلے ہی بڑھتی ہوئی افراط زر کے باعث تباہی کے دہانے پر ہے۔ آل پاکستان کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن کے ایک رکن عبدالمجید نے کہا، ''میں گزشتہ 40 سالوں سے کاروبار کر رہا ہوں اور میں نے ایسا مشکل وقت کبھی نہیں دیکھا‘‘۔ کراچی بندرگاہ، جہاں پاکستان کی مینوفیکچرنگ انڈسٹیریز کے لیے دال، دوا سازی، تشخیصی آلات اور کیمیکلز سے بھرے کئی شپنگ کنٹینرز ادائیگی کی ضمانتوں کے انتظار میں پھنسے ہوئے ہیں۔

کسٹم ایسوسی ایشن کے چیئرمین مقبول احمد ملک کے مطابق، '' ڈالر کی کمی کی وجہ سے بندرگاہ پر ہزاروں کنٹینر پھنسے ہوئے ہیں‘‘۔  انہوں نے مزید کہا کہ پورٹ آپریشنز میں کم از کم 50 فیصد کمی آئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر رواں ہفتے چھ بلین ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ یہ گزشتہ نو برسوں میں ڈالر کے ذخائر کی سب سے کم ترین سطح ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی گرتی معیشت اور ابھرتے ہوئے سیاسی بحران سے روپے کی قدر گر گئی جبکہ مہنگائی دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ برس کے تباہ کن سیلاب اور توانائی کی کمی نے بچی کچی کسر بھی پوری کر دی۔ پاکستان اس وقت 274 بلین ڈالر کا مقروض ہے، جو صرف ایک ماہ کی درآمدات کی ادائیگی کے لیے کافی ہیں۔

ملک کو آئی ایم ایف کی ڈیل سے کافی امیدیں وابستہ تھیں، جو پچھلی حکومت کے دورِ اقتدار میں کیا گیا تاہم اس ڈیل کے نتیجے میں ملنے والے قرض کی قسط گزشتہ سال ستمبر سے تعطل کا شکار ہے۔

آئی ایم ایف پاکستان سے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر باقی سبسڈیز کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم سے درخواست کی ہے کہ انہیں کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے موجودہ '’خوفناک صورتحال‘‘ سے نمٹنے کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔

’حکومت توجہ دے تو اربوں ڈالرز کمائے جا سکتے ہیں‘

کراچی سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ زبیر گل، جو یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں، کا کہنا ہے، ''گزارہ مشکل ہوگیا ہے‘‘۔  انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''مجھے سبسڈی والے آٹا خریدنے کے لیے دو یا تین گھنٹے تک قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور عام دکانوں میں آٹے کی قیمت ادا کرنا میرے بس میں نہیں‘‘۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ حکومت کے لیے آئندہ متوقع انتخابات کی مہم چلانا اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عملدرآمد،  دونوں ساتھ میں لے کر چلنا سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گا۔ لیکن دوسری جانب پاکستان کے لیے قرض کی اگلی اقساط بغیر شرائط پوری کیے ملنا مشکل ہیں۔

کاروباری برادری کی مشکلات

پاکستان میں اناج اور دالوں کے ایک درآمد کنندہ عبدالرؤف نے کہا کہ ان کے پاس صرف 25 دن کا اسٹاک رہ گیا ہے اور بینکوں کی جانب سے ''کریڈٹ لیٹرز کے بغیر رمضان کے مقدس مہینے میں ان اشیاء کی ''بے حد قلت پیدا‘‘ہو جائے گی۔ انہوں نے نیوز ایجنسی  اے ایف پی کو بتایا، ''میں نے کبھی ایسی صورتحال نہیں دیکھی، جہاں لوگ اتنے پریشان ہوں‘‘۔

زر مبادلہ کی کمی نے ٹیکسٹائل مالکان کی پریشانیوں کو بھی مزید بڑھا دیا ہے۔ یہ سیکٹر ملک کی درآمدات  کا تقریباً 60 فیصد ہے۔ لیبر قومی موومنٹ یونین کے سربراہ بابا لطیف انصاری کے مطابق ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مرکز فیصل آباد میں تقریباً 30 فیصد پاور لومز عارضی طور پر بند ہو چکی ہیں۔

انہوں نے بتایا، ''میں نے اس سے پہلے کبھی ایسی صورتحال نہیں دیکھی‘‘۔

ر ب/ ا ا (اے ایف پی)