1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان کووڈ انیس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا؟

19 مارچ 2020

پاکستان کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہنگامی حالات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ عمران خان حکومت کا ردعمل اب تک غیر تسلی بخش ہے۔ ماہرین کے بقول مناسب اقدامات نہ کیے گئے، تو ملک کو ایک 'بہت بڑی تباہی‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3ZhHk
Pakistan Flughafen Islamabad - Wiederaufnahme der Flüge nach China
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

کراچی کی ایک سپر مارکیٹ کے سامنے کھڑے ایک محافظ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم کورونا وائرس کے خلاف کر کیا سکتے ہیں؟ انسان تو دل کا دورہ پڑنے سے بھی مر سکتا ہے۔ موت تو آنی ہی ہے، وہ کہیں بھی آ سکتی ہے۔‘‘

Pakistan Karatschi | Behandlungszentrum Coronavirus
تصویر: Reuters/A. Soomro

کراچی میں ڈی ڈبلیو نے جن دیگر افراد سے بات چیت کی ان کا موقف بھی تقریباﹰ ایسا ہی تھا۔ کراچی پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے اور اس کی آبادی بیس ملین کے قریب ہے۔ صوبہ سندھ کے اس دارالحکومت میں اب تک 30 افراد میں جبکہ ملک بھر میں تقریباﹰ 250 افراد کے کووِڈ 19 کا شکار ہو چکے ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں کووِڈ انیس کے مریضوں کی تعداد 180 سے تجاوز کر چکی ہے۔

بدھ 18 مارچ کو صوبے گلگت بلتستان سے بھی کورونا وائرس کی وجہ سے پہلی ہلاکت کی اطلاعات تھیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں کورونا وائرس کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور دوسری جانب حکام اور عام شہری صورت حال کی سنگینی کو سمجھ ہی نہیں رہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کا منگل کو کیا گیا قوم سے خطاب اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھ نہیں رہے۔ عمران خان نے کہا کہ کووِڈ انیس کے واقعات میں مزید اضافہ ہو گا مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ان کے بقول، ''عوام کو پہلے ہی مشکل صورت حال کا سامنا ہے اور اگر ہم شہر بند کر دیں گے تو ایک طرف تو  ہم شہریوں کو کورونا وائرس سے محفوظ بنا لیں گے تو دوسری جانب وہ بھوک سے مر جائیں گے۔‘‘

Pakistan Corona
تصویر: DW/A. G. Kakar

عمران خان نے مزید کہا کہ پاکستان کو امریکا اور یورپ کی طرح کے حالات کا سامنا نہیں ہے، ''ہمارے ملک میں شدید غربت ہے۔'' اس موقع پر انہوں نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے اقدامات کا اعلان کرنے کے بجائے عوام کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا۔

شیعہ زائرین کے ساتھ بدسلوکی

پاکستان میں کووِڈ انیس کے زیادہ تر مریض ایسے شیعہ مسلم زائرین ہیں، جو ایران سے زیارتوں کے بعد پاکستان پہنچے ہیں۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے ان افراد کو تفتان کی سرحد پر قرنطینہ میں رکھ دیا۔ اس صورت حال میں طبی شعبے کے ماہرین نے الزام عائد کیا کہ ان متاثرہ شہریوں کے ساتھ حکام کی جانب سے برا سلوک کیا گیا۔

صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے سولہ مارچ کو کہا کہ عمران خان کی قیادت میں وفاقی حکومت کی جانب سے کوئٹہ میں بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا گیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ہزاروں زائرین کو تفتان کی سرحد پر ایک ساتھ ہی رکھا گیا، جس کی وجہ سے کووِڈ انیس کے مریضوں کی تعداد بڑھی۔ مراد علی شاہ کے بقول، ''اس بحران کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہی ٹالا جا سکتا ہے۔‘‘

انسانی حقوق کے لیے سرگرم امر سندھو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وفاقی حکومت کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں پہلے ہی اپنی شکست تسلیم کر چکی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کا منگل کے روز کیا گیا قوم سے خطاب مایوس کن تھا، ''ایسے لگتا ہے کہ انہوں نے موجودہ صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کی۔‘‘

احتیاتی تدابیر سے احتراز

پاکستانی وزارت صحت کی جانب سے عوام کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ کس طرح  خود کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ حکومت نے عوام سے اجتماعات سے دور رہنے، ہاتھ باقاعدگی سے دھونے اور کووِڈ انیس کے مریضوں سے فاصلہ رکھنے کی اپیل کی ہے۔

تمام بڑے ٹی وی چینلز سے ایسے پیغامات نشر کیے جا رہے ہیں تاہم اس کے باوجود پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد ان ہدایات کو نظر انداز کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملک میں غربت کی وجہ سے شہریوں کی اکثریت کورونا وائرس کو ایک چھوٹا مسئلہ قرار دیتی ہے۔

آئندہ چند روز پاکستان کی کورونا وائرس کے خلاف جاری کوششوں کے لیے انتہائی اہم ہوں گے۔ اگر اس وائرس کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھی، تو کئی شہروں کو مکمل طور پر بند کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ صرف کہنا ہی آسان ہے۔ اٹلی اور چین کی طرح پاکستان میں لوگوں کو گھروں میں رکھنا بہت ہی مشکل ہے اور بہت سے شہری اس طرح کے قوانین کی پاسداری نہیں کرتے۔

پاکستان کی طاقت ور فوج نے کہا ہے کہ وہ صورت حال کا بہت سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے۔ فوج نے کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے صحت کے عسکری مراکز کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اگر شہروں کو لاک ڈاؤن کرنے کی ضرورت پڑی تو یہ کام صرف پاکستانی فوج ہی کر سکتی ہے۔

کورونا وائرس: جرمنی میں پاکستانی برادری کا رہن سہن بھی متاثر

شامل شمس  (ع ا / م م)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں