1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں سیکیورٹی صورتحال: وضاحتیں اور اقدامات

14 اکتوبر 2009

پاکستان میں پے درپے دہشت گردانہ حملوں کے بعد فوج نے کہا ہے کہ ملکی سلامتی کے لئے حکام کی غیرسنجیدگی سے متعلق خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے دفاتر کو ڈپلومیٹک انکلیو بھی قرار دے دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/K5Y4
تصویر: AP

پاکستانی فوج نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ حکومت ملکی سلامتی کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔ یہ بیان فوجی ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کی ایک نیوز کانفرنس میں سامنے آیا۔ انہوں نے یہ باتیں پیر کے شانگلہ حملے کے حوالے سے کہیں، جس میں 41 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

Pakistan Militärsprecher Athar Abbas in Rawalpindi
فوجی ترجمان میجرجنرل اطہرعباستصویر: AP

اطہر عباس نے کہا، 'کیا آج کوئی بھی ادارہ، چاہے فوج ہو یا کوئی اور، دہشت گردی کے کسی ایک واقعے سے بچاؤ یا تحفظ کا سو فیصد یقین دلا سکتا ہے۔'

اسلام آباد حکومت اور فوج مسلسل ایسے اقدامات کر رہی ہے، جس سے ملکی سالمیت کو یقینی بنایا جائے۔ ساتھ ہی حکومت کو اس ضمن میں غیر ملکی اداروں اور ان کے اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے دفتر میں ہونے والے خود کش بم حملے کے بعد سے اقوام متحدہ کے تمام تر دفاتر کو غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیا گیا تھا۔

Anschlag Islamabad Pakistan
گزشتہ ہفتے اسلام میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفتر پر حملہ ہوا تھاتصویر: picture-alliance/ dpa

منگل کو حکومت کی طرف سے اقوام متحدہ کے تمام دفاتر کومخصوص سفارتی علاقہ 'ڈپلومیٹک اینکلیو' قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں UNO کے دفتر کو ایک نئی عمارت میں منتقل کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق ایسا صدر آصف علی زرداری کی خصوصی ہدایات کے تحت کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے کیونکہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دے رہے ہیں۔

رحمان ملک نے مزید کہا کہ جنگ اور بحران زدہ انسانوں کی مدد کے لئے اقوام متحدہ نے جو کچھ کیا ہے اسے حکومت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت میں رحمان ملک نے ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفتر پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کے حوالے سے بتایا کہ تفتیشی کارروائی جاری ہے اور دو مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک غالباً حملہ آور کو گاڑی میں بٹھا کر لایا تھا۔ رحمان ملک نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے اس واقعے سمیت متعدد دیگر واقعات کے پیچھے باجوڑ کے طالبان کا ہاتھ ہی معلوم ہوتا ہے۔

وزیر داخلہ نے اس امر کی نشان دہی بھی کی کہ جی ایچ کیو پر حالیہ حملے میں واحد زندہ بچ جانے والا ملزم عقیل عرف ڈاکٹر عثمان گزشتہ سال میریٹ ہوٹل پر ہونے والے خودکش حملے میں بھی ملوث تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فوج کے میڈیکل کور کا ایک سابق اہلکار تھا۔ دریں اثناء پاکستان کے ملٹری ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو پر ہونے والے حیران کن حملے کے تین روز بعد دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے نمبر ٹو رہنما ایمن الزواہری نے اسلام بعد حکومت اور پاکستانی فوج کو مغربی طاقتوں کا ساتھی قرار دیتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایمن الزواہری نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان مغربی ممالک کی طرف سے اسلام کے خلاف صلیبی جنگ میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

Symbolbild Pakistan Taliban Atomwaffen
طالبان نے پاکستان میں متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہےتصویر: AP/Montage DW

ادھر منگل کو جنوبی وزیرستان کے طالبان کے مشتبہ ٹھکانوں پر جیٹ طیاروں سے حملے کئے گئے۔ مقامی ذرائع کے مطابق اس علاقے میں ہونے والی شدید گولہ باری کا نشانہ طالبان اور قبائلی سرداروں کے ٹھکانے تھے۔ اس تازہ ترین آپریشن میں کم از کم چھ شدت پسندوں کی ہلاکت کی خبر ہے۔ دوسری جانب باجوڑ کے علاقے ماموند میں پاکستانی فوج کے گولہ باری اور فضائی حملوں کے نتیجے میں غیر مصدقہ خبروں کے مطابق کم از کم 24 عسکریت پسندوں کی ہلاکت اور 25 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں