1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں بجلی کا بحران شدید سے شدید تر

28 جون 2011

پاکستان کے بعض علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ سولہ گھنٹوں سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ اس وجہ سے صنعتی، تجارتی اور زرعی صارفین کے علاوہ عام لوگ بھی شدید تکلیف میں مبتلا ہیں۔

https://p.dw.com/p/11kvt
لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج
لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجتصویر: AP

پاکستان میں بجلی کی کمی پانچ ہزار میگا واٹ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ واپڈا کے چیئرمین شکیل درانی نے منگل کے روز بتایا کی بجلی کی طلب اور پیداوار میں فرق دو ہزار اٹھارہ تک ختم ہو سکے گا۔

ایک شہری عبد الحمید رحمانی نے بتایا کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ نے معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایک خاتون مسز حامد نے بتایا کہ بجلی کے بحران نے لوگوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بجلی نہ ہونے کے باعث کپڑے دھونے، استری کرنے، صفائی ستھرائی، اور کھانا بنانے سمیت گھر کے ہر کام میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بجلی نہ ہونے سے ہر کوئی پریشان ہے۔

یہی نہیں بلکہ طلبہ بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث سخت پریشان ہیں۔ ٹیپو نامی ایک بچے نے بتایا کہ بجلی نہ ہونے سے وہ ٹھیک طرح سے پڑھائی نہیں کر پا رہا۔

پاکستان میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت انیس ہزار دو سو چھیالیس میگا واٹ بیان کی جاتی ہے، لیکن فرنس آئل کی عدم دستیابی، پانی اور گیس کی کمیابی اور بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بہت کم بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی کی طرف سے جاری کیے جانے والے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ملک میں آج کل بجلی کی کل طلب اٹھارہ ہزار دو سو باسٹھ میگا واٹ ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں تیرہ ہزار اکیاون میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ اس وجہ سے ملک کو پانچ ہزار دو سو گیارہ میگا واٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔

پاکستان کے نیوکلیئر پاور پلانٹس سے سات سو پچیس میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے
پاکستان کے نیوکلیئر پاور پلانٹس سے سات سو پچیس میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہےتصویر: AP

آج کل پانی سے چار ہزار آٹھ سو اکہتر میگا واٹ ،تیل اور گیس سے دو ہزار پندرہ میگا واٹ، نجی پاور پلانٹس سے چھ ہزار سات میگا واٹ اور رینٹل پاور پلانٹ سے ایک سو اٹھاون میگا واٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے۔ پاکستان کے نیوکلیئر پاور پلانٹس سے بھی سات سو پچیس میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔

پانچ ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی کی کمی کے شکار اس ملک میں ایک لاکھ میگا واٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ھے۔ ملک کے ممتاز انرجی کنسلٹنٹ محسن سید کے مطابق پاکستان میں اگلے چند سالوں میں پانی سے پچاس ہزار میگا واٹ کوئلے سے تیس ہزار میگا واٹ، سورج کی روشنی سے بیس ہزار میگا واٹ اور ہوا سے دس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ان کے بقول جو سرمایہ کار مہنگے نرخوں پر درآمد کیے گئے فرنس آئل سے مہنگی بجلی تیار کر رہے ہیں ان کے لیے تو کافی مراعات ہیں لیکن مقامی کوئلے سے سستی بجلی تیار کرنے والوں کو مناسب منافع کی پیشکش نہیں کی جا رہی، جس کی وجہ سے نجی سرمایہ کار توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں۔ محسن سید کے بقول شمالی سندھ، مشرقی بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں ہوا سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، لیکن حکومتی شرط کے مطابق وہاں سرمایہ کاروں کے لیے زمین خریدنا ضروری ہے، مگر مقامی آبادی زمین بیچنے کو تیار نہیں ہے۔

بجلی کے بحران کے خاتمے کے لیے مزید نیوکلیئر پاور پلانٹس لگائے جائیں گے، یوسف رضا گیلانی
بجلی کے بحران کے خاتمے کے لیے مزید نیوکلیئر پاور پلانٹس لگائے جائیں گے، یوسف رضا گیلانیتصویر: picture alliance/dpa

پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر طاہر بشارت چیمہ نے بتایا کہ بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کی کارکردگی بہتر بنا کر، لائن لاسسز کم کرکے، تعطل کا شکار بجلی کے پیداواری منصوبوں کو تیزی سے مکمل کر کے اور گیس فیلڈز پر پاور پلانٹس بنا کر اور رینیوایبل انرجی کو فروغ دے کر پاکستان سے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کی جا سکتی ہے۔

ادھر پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ بجلی کے بحران کے خاتمے کے لیے مزید نیوکلیئر پاور پلانٹس لگائے جائیں گے۔ چین کے تعاون سے چشمہ کے مقام پر تعمیر کیے جانے والے دو نیوکلیئر پاور پلانٹس پہلے ہی کام کر رہے ہیں جبکہ ایک اور ایسا پلانٹ کراچی میں بھی موجود ہے ان پاور پلانٹس سے مجموعی طور پر سات سو پچیس میگا واٹ بجلی حاصل ہو رہی ہے۔

پاکستان میں جوہری امور پر دسترس رکھنے والے کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ نیوکلیئر انرجی کے بہت زیادہ پُرخطر اور مہنگے ہونے کے باعث توانائی کے متبادل ذرائع پر توجہ کی ضرورت ہے۔

محسن سید کے مطابق نیوکلیئر پاور پلانٹ کے استعمال شدہ فیول کو ٹھکانے لگانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور پاکستانی حکومت کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: افسر اعوان