1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ایٹمی بجلی کا حامی نہیں ہوں، ڈاکٹر عبدالقدیر

2 نومبر 2011

پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے بانی اور ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں توانائی کا بحران حل کرنے کے لیے نیو کلیئر بجلی کی پیداوار موزوں آپشن نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/133if
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
ڈاکٹر عبدالقدیر خانتصویر: AP

ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے اس ایٹمی سائنس دان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایٹمی بجلی کی پیداوار کے حوالے سے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایٹمی بجلی کی تیاری مہنگی بھی ہے اور اس میں وقت بھی کافی لگتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف تین سو میگا واٹ بجلی کی تیاری کے لیے ایک چھوٹا ایٹمی ری ایکٹر خریدنے میں نو دس سال لگتے ہیں اور اس پر ایک ارب ڈالر خرچ آتا ہے۔ ڈاکٹر خان کے مطابق ایٹمی بجلی کی تیاری امریکہ اور فرانس سمیت ان ملکوں کے لیے معاشی طور پر سود مند ہے جو اپنے ایٹمی ری ایکٹر خود بناتے ہیں۔ اس طرح انہیں یہ بجلی سستی پڑتی ہے: ’’ہمارے لیے اتنا مہنگا ایٹمی بجلی گھر بنانا اور پھر مینٹینینس کے لیے بار بار بند کرنا بہت مہنگا سودا ہے۔‘‘

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بقول پاکستان کے لیے پانی سے بجلی پیدا کرنا ہی مفید ہے کیونکہ پن بجلی کی پیداوار سستی بھی ہے اور آسان بھی: ’’دنیا میں میٹھا پانی آسانی سے نہیں ملتا اور ہم کئی ملین ٹن میٹھا پانی ہر ہفتے سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ ڈیم بنا کر اس پانی کو استعمال کر کے ہمیں سستی بجلی بنانی چاہیے۔‘‘

مسائل کے حل کے لیے لڑائی کا آپشن استعمال کرنا اب زیادہ سود مند نہیں رہا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان
مسائل کے حل کے لیے لڑائی کا آپشن استعمال کرنا اب زیادہ سود مند نہیں رہا، ڈاکٹر عبدالقدیر خانتصویر: Abdul Sabooh

ڈاکٹر خان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ اب اقتصادی مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول: ’’پاک بھارت لڑائی سے مغربی ملکوں کو فائدہ ہوتا ہے، یہ پاکستان اور بھارت کو لڑا کر اپنا اسلحہ بیچتے ہیں۔ امریکہ کے روس اور چین کے ساتھ تعلقات ماضی میں کافی کشیدہ رہے ہیں۔ اس کے باوجود اس دوران لاکھوں امریکی چین اور روس جایا کرتے تھے۔‘‘

ڈاکٹر عبدالقدیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسائل کے حل کے لیے لڑائی کا آپشن استعمال کرنا اب زیادہ سود مند نہیں رہا، ان کے بقول اگر یاسر عرفات ساٹھ سال پہلے اسرائیل سے معاہدہ کر لیتے، تو اُس دور کا اسرائیل آج کے اسرائیل سے پانچ گنا چھوٹا ہوتا اور اسے باہر سے امداد ملنا بھی آسان نہ ہوتا۔

پاکستان کے اس ایٹمی سائنسدان کی رائے میں کشمیریوں کو اپنے نظریے پر قائم رہتے ہوئے اپنا احتجاج رجسٹر کرواتے رہنا چاہیے، ان کے مطابق ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو قربان کر دینے کی پالیسی درست نہیں ہے۔ اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ کشمیریوں کو دور اندیشی سے کام لینے کی ضرورت ہے اور انہیں حقائق سے آنکھیں نہیں پھیرنی چاہییں: ’’انھیں احتجاجاﹰ الیکشن میں حصہ لینا چاہیے اور کشمیری عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی آواز بلند کرتے رہنا چاہیے۔ جب دنیا دیکھے گی کہ کشمیریوں کی اصل نمائندگی وہ کر رہے ہیں، تو ان کی بات بھی سنی جائے گی اور اس طرح وہ کئی سہولتیں بھی لے سکیں گے۔‘‘

ڈاکٹر عبدالقدیر کے مطابق: ’’ہم کشمیریوں سے کہتے ہیں کہ آپ ہم سے کیا توقعات رکھے ہوئے ہیں۔ آپ ہم کو بلا کر اپنا بیڑہ غرق کر لیں گے اور چور لٹیرے اور ڈاکو آ کر آپ کی زمینوں پر قبضہ کر لیں گے۔ آزاد کشمیر کی سیاست آپ کے سامنے ہے جہاں گندی سیاست ہو رہی ہے۔‘‘

ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر قدیر خان کا کہنا تھا کہ اس وقت پینسٹھ فیصد امریکی اپنی افواج کی افغانستان سے واپسی چاہتے ہیں اور امریکی انتظامیہ کے لیے اب اپنے ہاں رائے عامہ کو زیادہ دیر تک نظر انداز کرنا مشکل ہوگا۔ ان کے بقول سوا لاکھ اتحادی فوجی افغانستان کو محفوظ اور پرامن بنانےمیں ناکام رہے ہیں۔ طالبان امریکی مجبوریاں سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل درجن بھر اتحادی فوجی ہلاک کر کے یہ پیغام دیا کہ وہ اب بھی جہاں چاہیں کارروائی کر سکتے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر قدیر کا کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ پاکستانی امریکہ کے دشمن ہو جائیں، لیکن انہیں امریکہ کی غلامی اختیار کرنے کی بجائے برابری کی بنیاد پر اور اپنے قومی مفادات سامنے رکھتے ہوئے تعلقات استوار کرنے چاہییں۔

ڈاکٹر قدیر کے مطابق کسی عالمی طاقت کے لیے اب یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام یا میزائل اٹھا کر لے جائے، البتہ پاکستان کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس کی ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب سوویت یونین کی معیشت تباہ ہوئی تو وہ بکھر گیا تھا اور اس کے لیے وسطی ایشیا کی ریاستوں کو اپنے ساتھ رکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔

یک چھوٹا ایٹمی ری ایکٹر خریدنے میں نو دس سال لگتے ہیں اور اس پر ایک ارب ڈالر خرچ آتا ہے, ڈاکٹر خان
یک چھوٹا ایٹمی ری ایکٹر خریدنے میں نو دس سال لگتے ہیں اور اس پر ایک ارب ڈالر خرچ آتا ہے, ڈاکٹر خانتصویر: AP

ڈاکٹر عبدالقدیر کے بقول اقتصادی ترقی اور ملکی خوشحالی کے لیے زراعت کی بہتری، اور تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ صنعتیں لگانا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ موبائل فون کا کلچر شروع ہونے پر انہوں نے حکومت پاکستان کو موبائل بنا کر دینے کی پیشکش کی تھی لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ آج پاکستان میں موبائل فون کی درآمد پر چالیس سے پینتالیس ملین ڈالرز خرچ ہو رہے ہیں اور بھاری رقوم اس کی رائلٹی کی مد میں بھی دی جا رہی ہیں۔

ڈاکٹر قدیر کے مطابق امریکہ نے ماضی میں طویل عرصے تک پاکستان کی امداد بند کیے رکھی لیکن اُس وقت بھی پاکستان آج سے بہت بہتر تھا، ان کے بقول انہوں نے صدر مشرف کو تجویز دی تھی کہ زرعی پیداوار کو محفوظ بنانے کے لیے ملک بھر میں بڑے بڑے کثیرالمقاصد گودام تعمیر کیے جائیں۔ اس سے معاشی عمل میں بھی تیزی آئے گی اور کئی مسائل بھی حل ہو سکیں گے لیکن پرویز مشرف نے اس تجویز پر کان نہیں دھرا اور پیسہ بنانے میں لگے رہے۔

ڈاکٹر قدیرنے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے محب وطن ساتھیوں کے ساتھ مل کر دیانت داری سے کام کرتے ہوئے دس سال میں دو سو پچاس ملین ڈالر خرچ کر کے ملک کو ایٹمی طاقت بنا دیا: ’’نیوکلیئر طاقت نے پاکستان کو برتری دی۔ آج اس صلاحیت کی وجہ سے پاکستان کے دشمنوں کی جان جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں آٹھ سو ملین ڈالر کے ٹینک اور ڈیڑھ ارب ڈالر کی تین آبدوزیں کتنے کام کی ہیں، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘‘

ڈاکٹرقدیر کے مطابق: ’’اگر اللہ پاکستان کو صرف ایک اچھا لیڈر دے دے، جوبیس پچیس اچھے لوگوں کو ساتھ ملا کر مخلصانہ طور پر کام کرے، تو پاکستان کہیں سے کہیں پہنچ سکتا ہے۔ اس ملک میں بہت سے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، مزدور اور کسان سب بہت محنتی ہیں، یہ سب پاکستان کو ملائیشیا سے بھی بہتر ملک بنا سکتے ہیں۔‘‘

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں