1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: متوفی پادری کے لیے پیغمبر کا لفظ، تین مسیحی گرفتار

مقبول ملک20 اگست 2015

پاکستانی حکام کے مطابق پولیس نے دہشت گردی کے الزام میں تین ایسے مسیحی باشندوں کو گرفتار کر لیا ہے، جنہوں نے ایک پوسٹر پر چھپی ایک مرحوم کلیسائی شخصیت کے بارے میں مبینہ طور پر پر ’پیغمبر‘ کا لفظ استعمال کیا۔

https://p.dw.com/p/1GIMP
Protest von pakistanischen Christen nach Anschlägen auf Kirchen in Lahore
پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران کئی مسیحی عبادت گاہوں پر بڑے خونریز حملے دیکھنے میں آ چکے ہیں: مسیحی خاتون مظاہرین تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئےتصویر: Reuters/Mani Rana

پاکستانی صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے جمعرات بیس اگست کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ان تینوں اقلیتی شہریوں کو ملک کے مشرقی صوبے پنجاب کے شہر گجرات سے حراست میں لیا گیا۔ پولیس کے مطابق ان افراد کی گرفتاری ایک ایسے پوسٹر کے منظر عام پر آنے کے بعد عمل میں آئی، جو فضل مسیح نامی ایک پادری کی موت کی بیسویں برسی کے موقع پر چھپوایا گیا تھا اور جس میں اس مرحوم کلیسائی شخصیت کے حوالے سے اردو زبان میں ’پیغمبر‘ کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔

اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ پاکستان میں پیغمبر کا لفظ صرف مسلمانوں کے پیغمبروں اور نبیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اپنی نبوت کا دعویٰ کرنے والے کسی بھی فرد کے خلاف توہین مذہب کے الزام میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، جس کا نتیجہ سزائے موت کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔

گجرات کے ایک مقامی تھانے کے سربراہ شاہد تنویر نے ان گرفتاریوں کے بارے میں اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم نے تین ایسے مردوں کو گرفتار کیا ہے، جن میں سے ایک مرحوم پادری فضل مسیح کا بیٹا ہے۔ ان گرفتاریوں کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے مرحوم فضل مسیح کے لیے ’پیغمبر‘ کا لفظ استعمال کیا۔‘‘

شاہد تنویر نے مزید کہا کہ ان گرفتاریوں کے بعد انہوں نے اس پوسٹر کی تیاری کے معاملے پر مشاورت کے لیے مسلم مذہبی نمائندوں اور مقامی مسیحی برادری کی سرکردہ شخصیات کو طلب کر لیا۔ شاہد تنویر کے مطابق مقامی مسیحی برادری کے افراد نے اس واقعے پر معذرت کرتے ہوئے معافی کی درخواست کی کیونکہ ان کے بقول وہ اس پوسٹر کے ذریعے فضل مسیح کی مسیحیت کے لیے مذہبی خدمات کا اعتراف کرنا چاہتے تھے جبکہ مقامی مسلم مذہبی شخصیات نے یہ ’معذرت قبول کرنے سے انکار‘ کر دیا۔

متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او شاہد تنویر نے اے ایف پی کو مزید بتایا، ’’اس مہم کے منتظمین کے خلاف انسداد دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ان میں سے تین ملزمان کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے جبکہ گیارہ دیگر کی تلاش جاری ہے۔‘‘

پولیس اہلکار شاہد تنویر اس بارے میں کوئی وضاحت نہ کر سکے کہ ان ملزمان کے خلاف مقدمہ دہشت گردی کے الزام میں کیوں درج کیا گیا، کیونکہ دہشت گردی کے مقدمات عام طور پر ایسے بہت حساس نوعیت کے ’ہائی پروفائل‘ واقعات میں درج کیے جاتے ہیں، جن کی سماعت بالعموم بڑی تیز رفتاری سے مکمل کی جاتی ہے۔

Asia Bibi, in Pakistan für Blasphemie zum Tode verurteilt
آسیہ بی بیتصویر: picture-alliance/dpa/Governor House Handout

پاکستان کی قریب 180 ملین کی مسلم اکثریتی آبادی میں مسیحیوں کا تناسب تقریباﹰ دو فیصد ہے اور بہت سے اقلیتی شہریوں کو گزشتہ چند برسوں کے دوران ایسے برھتے ہوئے واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں ان کے خلاف پیغمبر اسلام یا قرآن کی توہین کے الزامات لگائے گئے تھے۔

پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس موضوع ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک میں اکثر کسی بھی شہری پر توہین مذہب کا الزام لگائے جانے کے بعد مشتعل عوامی ہجوم فوراﹰ بلوے اور آتش زنی پر اتر آتے ہیں اور جن ملزمان کو اپنے خلاف توہین مذہب کے الزامات کا سامنا ہوتا ہے، وہ عدالتوں سے شاذ و نادر ہی بری ہو پاتے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ پانچ بچوں کی ماں اور ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کا بھی تھا، جس کا مبینہ طور پر اس کے ساتھ کام کرنے والی ایک مسلم خاتون کے ساتھ پینے کے پانی کی وجہ سے جھگڑا ہو گیا تھا اور بعد میں اس اقلیتی شہری پر پیغمبر اسلام کی توہین کا الزام لگا دیا گیا تھا۔ آسیہ بی بی کو 2010ء میں ایک عدالت نے موت کی سزا سنا دی تھی۔ اس مسیحی خاتون کی اپنے خلاف سزائے موت کے فیصلے کے خلاف ایک اپیل ملکی سپریم کورٹ نے ابھی گزشتہ مہینے ہی سماعت کے لیے منظور کی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید