1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: فوج کی طرف سے طالبان کے خلاف کامیابیوں کے نئے دعوے

9 جولائی 2010

پاکستانی فوج نے افغان سرحد سے ملحقہ کئی علاقوں کو عسکریت پسندوں کے اثر سے مکمل طور پر صاف کرنے کے نئے دعوے کئے ہیں۔ فوج کے مطابق پارہ چنار سے لے کر تھل جیسے قبائلی علاقوں میں آج سکیورٹی فورسز اور انتظامیہ کی رٹ قائم ہے۔

https://p.dw.com/p/OFXT
پاکستانی فوجی طالبان کے خلاف ایک کارروائی کی تیاری میںتصویر: AP

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ کچھ ماہ پہلے تک جن علاقوں میں سڑکوں پر نصب کئے جانے والے بم پھٹا کرتے تھے وہاں آج ’’باغوں میں بہار ہے اور ہر طرف پھولوں کی مہک ہے۔‘‘

Pakistan schwere Gefechte Armee gegenTaliban
پاکستان فوج کے اہلکارتصویر: AP

فوج نے اپنے دعوے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے بعض صحافیوں کو اپنے ساتھ لے جا کر اُن علاقوں کا دورہ کروایا، جہاں کبھی مسلح طالبان کا بول بالا تھا۔ پاکستانی فوج کے مطابق سخت ترین کارروائیوں کے ذریعے کرم ایجنسی میں تین تا چار ہزار عسکریت پسندوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جا چکا ہے۔ فوج کو یقین ہے کہ اب عسکریت پسند دوبارہ اس علاقے کا رخ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

کئی صحافی فوج کی وساطت سے کرم ایجنسی کے دورے پر گئے، جہاں توصیف اختر نامی ایک فوجی کرنل نے انہیں یہ بتایا:’’ہمیں پورا یقین ہے، بلکہ دو سو فیصدی یقین ہے کہ جن عسکریت پسندوں کو ہم نے یہاں سے باہر نکالنے میں کامیابی حاصل کی ہے وہ یہاں دوبارہ لوٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔‘‘

فوج کے مطابق آپریشن سے پہلے کئی قبائلی علاقوں میں شیعہ سنی فسادات بھی عام تھے اور اکثر اہم عرس یا تقریب کے موقع پر دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر خودکش حملے ہوتے تھے۔

Soldat in Mingora / Pakistan
پاکستانی شہر منگورہ میں فوج کی موجودگیتصویر: AP

فوج کے کمانڈر کرنل توصیف اختر نے صحافیوں کو بریفنگ کے دوران کہا کہ کرم ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران کم از کم 18 فوجی اہلکار جاں بحق اور 46 زخمی ہوئے، ’’فوجی ایکشن میں 96 مسلح باغی مارے گئے، ایک سو سے زائد کو زندہ گرفتار کیا گیا جبکہ باقی فرار ہوگئے۔‘‘

کرنل توصیف نے تاہم اعتراف کیا کہ کچھ چھوٹے علاقوں میں اب بھی تھوڑی بہت تعداد میں باغی موجود ہیں، لیکن وہ علاقے سلامتی کے اعتبار سے اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ انہوں نے ایسے عسکریت پسندوں کی تعداد دو درجن بتائی۔

ادھر وفاق کے زیر انتظام علاقے فاٹا سے متعلق معاملات کے محقق منصور خان محسود نے فوج کے نئے دعووٴں پر شکوک شبہات ظاہر کئے۔’’یہ بات ٹھیک ہے کہ آرمی نے کئی علاقوں میں مسلح طالبان کے خلاف کامیاب آپریشن کیا ہے لیکن اب بھی وسطی کرم ایجنسی کے بہت سارے علاقوں میں عسکریت پسند سرگرم ہیں۔‘‘

Elf Tote bei Anschlag auf Luxushotel in Pakistan
پشاور کے ایک مشہور ہوٹل میں خودکش دھماکے کے بعد تباہی کا منظرتصویر: picture-alliance/ dpa

پاکستانی فوج نے گزشتہ برس اکتوبر میں جنوبی وزیرستان میں مقامی طالبان کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیا۔ تحریک طالبان پاکستان کے بعض عسکریت پسندوں نے اس آپریشن سے بچنے کے لئے کرم ایجنسی اور دیگر علاقوں کا رخ کیا تھا۔ اس کے فوراً بعد فوج نے کرم ایجنسی میں بھی آپریشن شروع کیا۔ رواں سال یکم جون سے لے کر اب تک اس علاقے میں فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان مختلف جھڑپوں میں 25 باغی مارے جا چکے ہیں۔ کرم کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اب بھی بہت سے عام شہری ہیں جو طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔

عسکریت پسندوں کے خلاف سخت کارروائیوں کے باوجود پاکستان کے مختلف علاقوں میں آئے روز خودکش بم حملے ہوتے رہتے ہیں، جن میں عام طور پر شہری ہی نشانہ بنتے ہیں۔

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی/خبر رساں ادارے

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں