1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اپنی کال کوٹھڑیاں خالی کر رہا ہے

Weigand, Florian / امجد علی4 اگست 2015

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پھانسیوں کی سزاؤں پر پھر سے عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے تاہم ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار فلوریان وائیگنڈ کے مطابق یہ محض ایک عوامیت پسند بہانہ ہے۔

https://p.dw.com/p/1G9Sr
Symbolbild Selbstmord
تصویر: vkara - Fotolia.com

تمام تر بین الاقوامی دباؤ اور ملک کے اندر بھی کی جانے والی اپیلوں کے باوجود منگل چار اگست کو پاکستانی شہر کراچی کی سینٹرل جیل میں ایک سات سالہ بچے کے اغوا اور قتل کے جرم میں سزائے موت پانے والے شفقت حسین کو تختہٴ دار پر لٹکا دیا گیا۔ حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم گروپوں، شفقت کے وکلاء اور اہلِ خانہ کا موقف یہ رہا ہے کہ جس وقت شفقت حسین کو گرفتار کیا گیا، وہ سترہ سال کا ایک نابالغ لڑکا تھا، جسے پاکستانی قانون کے تحت موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔

اس حوالے سے فلوریان وائیگنڈ اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں:’’شروع ہی میں ایک بات واضح کرتے ہوئے مَیں کہنا چاہتا ہوں کہ مَیں موت کی سزا کے خلاف ہوں۔ یہ اپنے جوہر میں غیر انسانی ہے کیونکہ ایک بات، جو اکثر فراموش کر دی جاتی ہے، یہ ہے کہ یہ اُن ججوں کے ضمیر پر بھی ایک بڑا بوجھ اور ایک بے پناہ ذمے داری ہوتی ہے، جنہیں کسی شخص کی زندگی اور موت کے بارے میں فیصلہ دینا ہوتا ہے، خاص طور پر اُس صورت میں، جب اُس شخص کے قصور وار ہونے کے بارے میں ذرا سا بھی شک و شبہ پایا جاتا ہو۔

ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی عدلیہ بھی اس ذمے داری کو سرسری طور پر لے رہی ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں موت کی سزاؤں پر عمل درآمد پر عائد عارضی پابندی ختم کیے جانے کے بعد سے اب تک 180 افراد کو تختہٴ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔ مزید آٹھ ہزار قیدیوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہونے والا ہے۔ اور ایسا صرف مبینہ دہشت گردوں کے ساتھ ہی نہیں ہو رہا حالاں کہ ایک دہشت گرد گروپ کی جانب سے پشاور کے ایک اسکول پر حملے اور 150 طالب علموں کے بے رحمانہ قتل کے بعد موت کی سزا کو بحال اُنہی کے لیے کیا گیا تھا۔

افسوس کہ وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ پاکستان میں موت کی سزا کے حامی حلقوں نے پشاور کے واقعے کو پھانسیوں کی بحالی کے لیے ایک عوامیت پسند بہانے کے طور پر لیا۔ اس پر بھی مستزاد یہ کہ ایسے قیدیوں کو بھی پھانسی دی جا رہی ہے، جیسا کہ شفقت حسین کی مثال سے ظاہر ہے، جن کے قصور وار ہونے کے بارے میں شبہ ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اپنی کال کوٹھڑیاں خالی کرنا چاہتا ہے۔

Weigand Florian Kommentarbild App
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار فلوریان وائیگنڈ

اور یہ سزائیں خاص طور پر محروم اور پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کا مقدر بن رہی ہیں۔ شفقت حسین کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشیمر کے ایک دور افتادہ علاقے کے ایک غریب خاندان سے تھا۔ ایسا برتھ سرٹیفیکیٹ اُس کے پاس تھا ہی نہیں، جو یہ ثابت کرتا کہ جب جرم ہوا، تب وہ نابالغ تھا۔ نہ ہی اُس کے اہلِ خانہ کے پاس اتنے پیسے ہی تھے کہ وہ اُس کے لیے کوئی ماہر وکیل کر سکتے۔ پاکستانی ججوں نے اقوام متحدہ کے اس مقدمے پر نظر ثانی کے مطالبات کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔

اسی طرح کے مزید کیسز کے سلسلے میں غربت، مقدمے کی مشکوک کارروائی اور بین الاقوامی تنقید کو نظر انداز کرنا ایسے عوامل ہیں، جو تشویش کا باعث ہیں۔ دنیا بھر میں شہ سرخیوں کا موضوع بننے والا اسی طرح کا ایک اور کیس آسیہ بی بی کا ہے، جس کا تعلق مسیحی اقلیت سے ہے اور جس پر الزام ہے کہ وہ توہینِ اسلام کی مرتکب ہوئی ہے۔ یہ ایسا الزام ہے، جس پر پاکستان میں موت کی سزا کا قانون ہے۔ ان معاملات میں بھی بات الزامات کی ہے۔ آسیہ بی بی کا تعلق بھی ایک غریب گھرانے سے ہے، اُس نے محض ابتدائی تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور وہ بھی کسی مہنگے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایک وکیل کے لیے آسیہ بی بی جیسی ملزمہ کی وکالت کرنے میں ’جان کا بھی خطرہ‘ ہے کیونکہ اُس پر الزام لگ سکتا ہے کہ وہ توہینِ مذہب کا مرتکب ہونے والے کسی فرد کی وکالت کر رہا ہے۔ آسیہ بی بی کے معاملے کو سلجھانے کے لیے بھی بین الاقوامی تنظیمیں کوشش کر رہی ہیں، حتیٰ کہ پاپائے روم نے بھی اپنی ہم مذہب خاتون کے حق میں آواز بلند کی ہے۔

Pakistan Shafqat Hussain Todeskandidat
منگل چار اگست کو پاکستانی شہر کراچی کی سینٹرل جیل میں ایک سات سالہ بچے کے اغوا اور قتل کے جرم میں سزائے موت پانے والے شفقت حسین کو تختہٴ دار پر لٹکا دیا گیاتصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum

اگر ججوں نے آسیہ بی بی کے معاملے میں بھی شفقت حسین جیسا طرزِ عمل روا رکھا تو آسیہ بی بی پاکستانی عدلیہ کا اگلا شکار ہو گی۔‘‘

اپنے تبصرے کے آخر میں فلوریان وائیگنڈ لکھتے ہیں:’’ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پھانسی کی سزائیں روک دی جائیں، پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ہر جگہ کیونکہ بہت سے مغربی ملکوں میں بھی یہ سزا رائج ہے، جس کی نمایاں مثال امریکا ہے۔ اگر کوئی بے گناہ شخص جیل جاتا ہے تو وہ حالات بہتر ہونے پر کم از کم رہا ہو سکتا ہے اور زرِ تلافی پا سکتا ہے۔ اس کے برعکس پھانسی کی سزا ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید