1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی قبائلی علاقے وزیرستان میں فوجی آپریشن

رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور، ادارت: عابد حسین17 جون 2009

پاکستانی فوج کے مالاکنڈ ڈویژن میں آپریشن پر انگلیاں اٹھانے کی تفصیلات اب سامنے آنے لگیں ہیں کہ فوج مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کیا وزیرستان آپریشن بھی اِسی انداز اور سوچ کے ساتھ شروع کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/IC3P
مالاکنڈ ڈویژن میں فوجی آپریشن کے بعد وزیرستان میں فوجی آپریشن کی اطلاع کے بعد فبائلیوں کا جرگاتصویر: AP

مالاکنڈ ڈویژن میں آپریشن کے بعد حکومت نے جنوبی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بیت اللہ محسود کے خلاف آپریشن شروع کردیاہے۔ جنوبی وزیرستان کے متعدد علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی ہے جس میں ہلاکتوں کا بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب قبائلی سرداروں کی گرفتاری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اب تک اجتماعی ذمہ داری کے قوانین کے تحت ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اورٹانک میں محسود قبائل کے چار سرداروں کوگرفتارکیاجاچکاہے۔ آپریشن کے خوف سے وزیرستان کے عوام علاقہ چھوڑ کر صوبہ سرحد کے جنوبی ا ضلاع میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں پناہ لینے پرمجبور ہو گئےہیں۔

Flüchtende in Pakistan
وزیرستان سے بے گھر ہونے والوں کی چیکنگتصویر: AP

مبصرین کا کہناہے کہ بیت اللہ محسود کے ڈر سے علاقہ چھوڑنے والے قبائلی سرداروں کی گرفتاری جیسے احکامات قبائلی عوام کوحکومت سے متنفر کرنے کیلئے کافی ہیں۔ بیت اللہ محسود جوکہ پاکستان میں طالبان کے سربراہ اور سب سے مضبوط کمانڈر تصور کیے جاتے ہیں، کے خلاف حکومت پہلے بھی دو دفعہ آپریشن کرچکی ہے۔ جسکا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا تاہم اس مرتبہ شروع کیے گئے آپریشن کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ مالاکنڈ اورباجوڑ میں آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچائے بغیر وزیرستان میں آپریشن شروع کرنا حکومت کی کوتاہ بینی ہے۔ قبائلی امور کے ماہر اورتجزیہ نگار سلیم صافی کہتے ہیں کہ وزیرستان میں دوگروپ کھُل کر بیت اللہ محسود کی مخالفت کررہے ہیں انہوں نے ماضی میں بھی بیت اللہ محسود کو مشکلات پیدا کی ہیں۔ ان میں ایک محسود قبائل کے مولوی زین الدین اور محسود کے بیٹنی کے علاقے کے کمانڈر ترکستان شامل ہیں ۔ سلیم صافی کے مطابق محسود قبائل کے زین الدین کسی زمانے میں عبداللہ محسود کے قریبی ساتھیوں میں تھے۔ اِن دونوں قبائلی لیڈروں نے بیت اللہ محسود کیلئے ماضی میں بھی مشکلات پیدا کی تھیں اوراب بھی کرسکتے ہیں۔ سلیم صافی کے خیال میں حافظ گل بہادر گروپ اورمولوی نذیر گروپ بیت اللہ محسود کے مقابلے میں اتنے طاقتور نہیں سمجھے جاتے ۔

Pakistan Armee in den Bergen
طالبان کے خلاف فوجی آپریشن میں شریک پاکستانی فوج کے اہلکارتصویر: Abdul Sabooh

سلیم صافی اور دوسرے فبائلی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ ماضی میں حکومت نے توعسکریت پسندوں کے ساتھ کھل کر مذاکرات کئے اورنہ ہی طاقت استعمال کی تھی۔ سب کوپتہ ہے کہ بیت اللہ محسود ہی پاکستانی طالبان کے سربراہ ہیں اور وزیرستان ہی طالبان کاگڑھ ہے لیکن مالاکنڈ میں فوجی آپریشن میں پہل کی گئی اور وہاں مطلوبہ نتائج کے حصول میں ناکامی کے بعد وزیرستان کارخ کیا گیا ہے۔

یہ بھی حیران کن بات ہے کہ حکومت ایک ہی وقت میں کئی فرنٹ کھولنے کی پہلے مخالف تھی لیکن آب وزیرستان کاآپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ ستلیم صافی حکومت کے وزیرستان پر آپریشن شروع کرنےکے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح مالاکنڈ میں آپریشن سے قبل مقامی لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا اسی طرح وزیرستان کے لوگوں کو بھی اِنہی پالیسیوں کی وجہ سے متنفر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ آپریشن کاآغاز تمام محسودقبائل کے خلاف پابندیوں سے کیاگیا جنہیں ایک طرف طالبان کی وجہ سے صعوبتیں برداشت کرنی پڑی اوراب حکومتی اقدامات کی وجہ سے انہیں دربدر ہونا پڑ رہا ہے بلکہ سرحد کے اضلاع میں ان کی پکڑدھکڑ جاری ہے۔

وزیرستان میں بیت اللہ محسود کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے جہاں حکومت قبائلی سرداروں کی حمایت کے حصول کے لئے کوششیں کررہی ہیں وہاں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بیت اللہ محسود کے مخالف گروپوں کے ساتھ بھی رابطے کئےجارہے ہیں۔

مبصرین کا کہناہے کہ ان رابطوں کے دیرپا ہونے اور ان کمانڈروں کے مضبوط اور توانا ہونے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ ماضی میں بیت اللہ محسود اورمولوی نذیر کے مابین علاقے میں غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی پر کشیدگی ختم کرانے میں افغان طالبان نے اہم کرداراد اکیا تھا۔ اُسی آپریشن کے نتیجے میں بے گھرہوئے اور کئی سرحدی اضلاع کی لپیٹ میں آنے کی وجہ سے بنوں کے بکاخیل قبائل نے حکومتی شرائط تسلیم کرتے ہوئے غیر ملکیوں کوپناہ نہ دینے اور چیک پوسٹوں کے قیام پررضامندی ظاہر کی ہے۔ جسکے بعد سیکورٹی فورسز نے وزیرستان کے سرحدی اضلاع میں کئی چیک پوسٹیں بنائی ہیں ۔تجزیہ نگار سلیم صافی کہتے ہیں کہ بعض اوقات طاقت کا استعمال ناگزیر ہوتاہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ طاقت کس طرح استعمال کی جائے۔ صافی کا مزید کہنا ہے کہ طاقت کے استعمال کاایک طریقہ یہ ہوسکتاہے کہ انٹیلی جنس کے نظام کو مضبوط بناکر اس کے ذریعے اصل طاقت کوہدف بنایا جاتا ہے۔ سلیم صافی کے خیال میں طاقت کے استعمال کا دوسر اطریقہ مالاکنڈ میں دیکھا گیا جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور سینکڑوں مارے گئے لیکن مطلوب افراد کی فہرست جوں کے توں ہے اور اس میں ایک فرد کی بھی کمی نہ آسکی ۔

طاقت کے استعمال کے لئے وہی طریقہ بہتر ہوتا کہ جس میں عمائدین کی حمایت حاصل کرنے کے بعد کم سے کم جانی اور مالی نقصان ہوتا۔