1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیکساس میں غیرقانونی اسقاطِ حمل کا رُجحان

عابد حسین19 نومبر 2015

امریکی ریاست ٹیکساس کی خواتین میں اسقاطِ حمل کے رُجحان میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ریپبلکن پارٹی کا گڑھ سمجھی جانے والی اس امریکی ریاست میں ہیلتھ کیئر یونٹس میں اسقاط حمل کروانا انتہائی مشکل عمل ہے۔

https://p.dw.com/p/1H8or
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Muhly

ایک تازہ ریسرچ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکی ریاست ٹیکساس میں تقریباً ایک لاکھ خواتین کسی ڈاکٹر کی مدد لیے بغیر اپنے حمل کو ضائع کرنے کی کوششیں کرچکی ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگلے ہفتوں اور مہینوں میں یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے کیونکہ ریاست میں اسقاطِ حمل پر پابندیوں کے سخت قوانین کا نافذ ہیں۔ ریسرچ کے مطابق اسقاطِ حمل کے لیے حاملہ خواتین نے جڑی بوٹیوں، ہارمونل ادویات کے ساتھ ساتھ شدید اثر ات والی ڈرگز کا بھی استعمال کیا ہے۔ کئی خواتین نے خود یا اپنے کسی دوست یا پارٹنر کے توسط سے اپنے نچلے پیٹ پر گھونسے مار کر ٹھہرے ہوئے حمل کو زائل کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں۔

امریکی شہر سان فرانسِسکو میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایک سینیئر پروفیسر ڈینئل گراسمین کا کہنا ہے کہ ٹیکساس کی کلینکس میں اسقاطِ حمل پر سخت پابندیاں ریاستی اسمبلی کی قانون سازی کے بعد عائد ہو چکی ہیں اور اگلے دنوں میں ایسے اسقاطِ حمل کی کوشش کرنے والی خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ یقینی ہے۔ پروفیسر گراسمین کے مطابق ایسے خواتین جو حمل سے کسی طرح نجات حاصل کرنا چاہتی ہیں، اُن کے پاس ایسی کوششوں کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

Protest gegen "Planned Parenthood"
امریکی ریاست ٹیکساس میں تقریباً ایک لاکھ خواتین کسی ڈاکٹر کی مدد لیے بغیر اپنے حمل کو ضائع کرنے کی کوششیں کرچکی ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Gay

یہ ریسرچ رپورٹ اُس سپریم کورٹ کے حکم کے بعد سامنے آئی ہے جس میں عدالت نے گزشتہ جمعے کو اِن ریاستی پابندیوں پر نظرثانی کرنے کا کہا تھا۔ سن 2007 کے بعد امریکی سپریم کورٹ میں ایک انتہائی حساس اور نازک معاملے پر جرح ہونے جا رہی ہے۔ اسقاطِ حمل کی ریاستی پابندیوں کا اطلاق سن 2013 میں کیا گیا تھا۔ اس بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اگلے برس جون میں متوقع ہے۔ ٹیکساس کی ریاستی اسمبلی میں ریپبلکن پارٹی کے اراکین کی اکثریت ہے۔ ریاستی پارلیمنٹ کی قانون سازی پر توثیق کے دستخط اُس وقت کے گورنر رِک پیری نے کیے تھے۔ اِس قانون کے بعد ٹیکساس میں اسقاطِ حمل کے نصف کلینکس بند کر دیے گئے تھے۔

قانون سازی کے اطلاق کے بعد اب ٹیکساس کی تقریباً چون ملین خواتین کے لیے صرف دس اسقاطِ حمل کے کلینکس ہیں۔ کئی خواتین کو مخصوص کلینکس تک پہنچنے کے لیے طویل مسافرت طے کرنا پڑتی ہے۔ اِسی مشکل صورت حال کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اِس رپورٹ کے اعداد و شمار کے لیے ٹیکساس کی اٹھارہ برس سے انچاس برس تک کی درمیانی عمر کی خواتین کے انٹرویوز اور کوائف جمع کیے گئے تھے۔ ریسرچ کے لیے سروے کا کام دسمبر سن 2014 اور رواں برس کے پہلے مہینے کے دوران مکمل کیا گیا تھا۔ اِس رپورٹ کے مطابق 1.7 فیصد خواتین نے اپنا حمل خود سے گرانے میں کامیابی حاصل کی تھی اور یہ کل آبادی کا ایک لاکھ بنتا ہے۔