ٹرمپ کی طرف سے امیگریشن مخالف ایک اور سخت بیان
1 ستمبر 2016ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایک روز کے اندر اس حوالے سے یہ دوسرا سخت بیان تھا۔ قبل ازیں انہوں نے میکسیکو کے صدر انریک پینا نیتو کے ساتھ ملاقات کے بعد امریکی شہر فینکس میں ایک پرشور ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’ہم معافی دیے جانے اور غیر قانونی ترک وطن کے سلسلے کو توڑ دیں گے۔‘‘
ترک وطن یا امیگریشن ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اہم منصوبوں میں سے ایک ہے جن کی بنیاد پر وہ اپنی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی حریف ہیلری کلنٹن کے مقابل اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کا عمل روکنے اور امریکا میں موجود قانونی حیثیت نہ رکھنے والے افراد کی طرف سے غلط رویے پر قابو پانے کے لیے ایک 10 نکاتی منصوبہ بھی پیش کیا ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’دنیا کو ہمارا پیغام یہ ہو گا: آپ غیر قانونی طور پر ہمارے ملک میں داخل ہونے کے بعد یہاں پر قانونی حیثیت حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی شہریت حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا، ’’آپ محض یہاں اسمگل ہو کر اور چھپ کر اس بات کا انتظار نہیں کر سکتے کہ یہاں قانونی حیثیت مل جائے گی۔ وہ دن اب ختم ہو گئے۔‘‘
ٹرمپ کی طرف سے امیگریشن کے حوالے سے یہ سخت بیان پینا نیتو سے ملاقات کے دوران اس بات پر اصرار کے کچھ دیر بعد سامنے آیا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو پھر وہ امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر ایک بڑی دیوار تعمیر کی جائے گی۔
ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے میں ایسے تارکین وطن کو ملک بدر کرنا بھی شامل ہے جو مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ کاغذات نہ رکھنے والے ایسے کئی ملین افراد کو فائدہ پہنچانے والے صدر باراک اوباما کے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کی معطلی اور ایسے شہروں کو وفاقی فنڈنگ روکنا بھی ان کے منصوبے کا حصہ ہے جو کاغذات نہ رکھنے والوں کے خلاف امتیازی سلوک کی مخالفت کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے بر عکس ہیلری کلنٹن نے ایک ایسے طریقہ کار کی سپورٹ کرنے کا عندیہ دیا ہے جس سے امریکا میں آباد ایسے لوگوں کو شہریت دی جا سکے جن کے پاس قانونی کاغذات نہیں ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس ابتدائی منصوبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو وہ امریکا میں آباد ایسے قریب 11 ملین افراد کو ملک بدر کر دیں گے جن کے پاس امریکا میں رہائش کے قانونی کاغذات نہیں ہیں۔ امریکا میں صدارتی انتخابات رواں برس آٹھ نومبر کو ہوں گے۔