1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ: مسلمان ملکوں کے شہریوں پر پابندی، دنیا بھر میں مظاہرے

علی کیفی اے ایف پی
30 جنوری 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سات مسلمان ملکوں کے شہریوں کے امریکا کے سفر پر پابندی کے فیصلے کے خلاف اتوار انتیس جنوری کو دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک آزمائش کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2WcfB
USA Amerika protestiert gegen den Einreiseverbot für Muslime New York
نیویارک میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں پولیس کے اندازے کے مطابق دَس ہزار افراد نے شرکت کی اور ’مہاجرین کو خوش آمدید‘ جیسے نعرے لگائےتصویر: Getty Images/S. Platt

نئے امریکی صدر کے لیے اُن کے جو فیصلے ایک آزمائش کی شکل اختیار کر گئے ہیں، وہ اُنہوں نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے بعد ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے متعارف کروائے تھے۔ اس صدارتی فرمان پر دستخط کرتے ہوئے ٹرمپ نے بیرونی دُنیا سے تمام مہاجرین پر کم از کم ایک سو بیس دنوں کے لیے اور شامی مہاجرین پر غیر معینہ مدت کے لیے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ سات مسلمان ملکوں ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے عام شہریوں پر نوّے روز کے لیے امریکا کے سفر پر پابندی عائد کر دی تھی۔

خود ٹرمپ کے حلیفوں نے بھی ان پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، سرحدی گارڈز ابہام کا شکار ہو گئے تھے اور ڈیموکریٹس کو ٹرمپ کو ہدفِ تنقید بنانے کا موقع ہاتھ آ گیا تھا۔ خود ری پبلکنز کی صفوں میں بھی بے چینی نظر آنے لگی تھی۔

چار وفاقی ججوں نے مہاجرین کی جبری واپسی روکنے کے اقدامات کیے جبکہ تین سو کے قریب افراد کو دُنیا بھر میں امریکا جانے سے روکا یا حراست میں لیا گیا اور امریکا میں شہری حقوق کے لیے سرگرم وکلاء نے خبردار کیا ہے کہ یہ معاملہ ملکی سپریم کورٹ تک بھی جا سکتا ہے۔

اتوار کو امریکا بھر کے اہم ہوائی اڈوں پر مسلسل دوسرے روز بھی مظاہرین جمع ہوئے اور اُنہوں نے ٹرمپ کے فرمان سے متاثر ہونے والے تارکینِ وطن اور مہاجرین کی حمایت میں نعرے لگائے۔

USA Amerika protestiert gegen den Einreiseverbot für Muslime
ایک خاتون امریکی پرچم سے بنا حجاب پہنے نیویارک میں ٹرمپ کے احکامات کے خلاف منظم کیے گئے مظاہرے میں مقررین کی تقاریر سن رہی ہے تصویر: Reuters/S. Keith

واشنگٹن ڈی سی کے قریب ڈَلیس ایئرپورٹ پر پہنچنے والے ایک عراقی نژاد اڑتیس سالہ امریکی شہری سیف رحمان کو اضافی اسکریننگ کے عمل سے گزارا گیا۔ بعد ازاں اس شہری نے فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا:’’مَیں بس یہ امید کرتا ہوں کہ ایک ملک کے طور پر اپنی اَقدار کو برقرار رکھتے ہوئے ہم یہ مشکل وقت گزار جائیں۔‘‘

امریکا کے اہم ایئر پورٹس پر وکلاء نے اپنے مترجمین کے ہمراہ دکانیں سجا لیں اور اُن افراد کی رہائی کے لیے کوششیں شروع کر دیں، جنہیں امریکا پہنچنے پر حراست میں لے لیا گیا تھا۔ اِن میں سے کئی اُس وقت طیارے پر امریکا کی جانب محوِ سفر تھے، جب ٹرمپ نے گزشتہ جمعے کے روز ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے۔

قانونی ویزے کے حامل ہونے کے باوجود کم از کم ایک سو نو افراد کو امریکا پہنچنے پر حراست میں لے لیا گیا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اِن میں سے مزید کتنے بدستور زیرِ حراست ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے سرکردہ ارکان اِن متاثرین کی تعداد کم کر کے ’محض چند درجن‘ بتا رہے ہیں جبکہ کینیڈا نے اس پابندی کی وجہ سے اپنے ہاں پھنس جانے والے مسافروں کو عارضی رہائش فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ بیروت ایئر پورٹ کے ایک اہلکار کے مطابق چھ شامی باشندوں کو فلاڈیلفیا انٹرنیشنل ایئر پورٹ سے واپس لبنان بھیج دیا گیا۔

ہر طرف سے تنقید شروع ہو جانے پر وائٹ ہاؤس سے یہ بیان جاری کیا کہ یہ پابندی مسلمانوں پر نہیں ہے اور یہ کہ میڈیا اس معاملے کو اُچھال رہا ہے۔ بیان کے مطابق ’معاملہ مذہب کا نہیں بلکہ دہشت گردی اور اپنے ملک کو محفوظ بنانے کا ہے، میڈیا غلط رپورٹنگ کر رہا ہے‘۔

USA Amerika protestiert gegen den Einreiseverbot für Muslime New York
اٹھائیس جنوری کو جون ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر ٹرمپ کے احکامات کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہےتصویر: Getty Images/S. Keith

نیویارک میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں پولیس کے اندازے کے مطابق دَس ہزار افراد نے شرکت کی اور ’مہاجرین کو خوش آمدید‘ اور ہولوکاسٹ یعنی جرمنی میں یہودیوں کے قتلِ عام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ’نیور اَگین‘ یا ’پھر کبھی نہیں‘ کے نعرے لگائے۔ مین ہیٹن کے علاقے بیٹری پارک میں منعقدہ اس مظاہرے میں شریک ڈیموکریٹک سینیٹر چارلس شومر نے مجمع سے خطاب میں کہا کہ ٹرمپ کے احکامات ’غیرامریکی‘ ہیں اور ملکی اقدار کے منافی ہیں۔ اُن کا اس موقع پر کہنا تھا، ’’ہم یہاں کئی افراد کی زندگی اور موت کی بات کر رہے ہیں۔ میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک ان خوف ناک احکامات کا خاتمہ نہ ہو جائے۔‘‘ اس مظاہرے کے شرکاء نے بعد میں نیویارک میں امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کے دفتر کی جانب مارچ بھی کیا۔

واضح رہے کہ ٹرمپ نے اُسی روز یہ فرمان جاری کیا، جس روز ہولوکاسٹ میموریل ڈے منایا جا رہا تھا۔ نیویارک سٹی کے ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے میئر نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کی وجہ سے ہر امریکی شہر کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی ایک لہر سرایت کر  جانی چاہیے‘۔ دارالحکومت واشنگٹن اور دیگر بڑے شہروں مثلاً لاس اینجلس، ڈینور اور بوسٹن میں بھی ہزاروں مظاہرین احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔ تہران اور قاہرہ سے لے کر اہم یورپی ممالک تک کی جانب سے بھی ٹرمپ کے ان احکامات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔