131211 Welthungerhilfe Jubiläum
14 دسمبر 2011اس مناسبت سے آئندہ سال بھر کے دوران پورے جرمنی میں مختلف تقریبات منقعد کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ اس تنظیم کے بیان کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بھوک کے خاتمے کے موضوع کو خاص اہمیت دی جانے لگی ہے۔ اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے کے زیر نگرانی ویلٹ ہنگر ہلفے کا قیام 14 دسمبر 1962ء کو عمل میں آیا۔ اس تنظیم کا مقصد دنیا بھر سے بھوک کا خاتمے کے لیے کوششیں کرنا ہے۔ گزری نصف صدی کے دوران یہ جرمنی کی سب سے بڑی غیر سرکاری فلاحی تنظیم بن چکی ہے۔
بیربل ڈیکمان’Bärbel Dieckman ‘ویلٹ ہنگر ہلفے کی بون کی شاخ کی سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ شہر کی میئر بھی ہیں۔ وہ اپنی تنظیم کی سرگرمیوں کو کچھ اس طرح سے بیان کرتی ہیں:’’ان پچاس برسوں میں سب سے اہمیت ہم نے اپنے مقصد کے حصول کو دی، یعنی انسانوں کو بھوک سے بچایا جائے، انہیں اپنی مدد آپ کے تحت مشکلات سے نجات دلائی جائے اور ان کے لیے باوقار اور بھوک سے آزاد زندگی گزارنا ممکن بنایا جائے۔‘‘
اس تنظیم کے تعاون سے دنیا کے کئی ممالک میں زرعی منصوبے چلائے گئے اور لوگوں کو وسائل کے موزوں استعمال کے بارے میں بتایا گیا۔ نصف صدی کے دوران ویلٹ ہنگر ہلفے کی جانب سے اپنی مدد آپ کے تحت شروع کیے جانے والے منصوبوں کی تعداد چار ہزار پانچ سو بنتی ہے۔ اسی طرح دنیا کے ستر سے زائد ممالک میں بچوں اور نوجوانوں کے پہلے سے جاری گیارہ سو سے زائد منصوبوں کو آگے بڑھایا گیا۔ ہنگامی امداد کے ایک ہزار پروگرم اس کے علاوہ ہیں۔
ڈیکمان نے مزید بتایا کہ ویلٹ ہنگر ہلفے کی کوششوں سے لاکھوں انسانوں کو فائدہ پہنچا ہے:’’1969ء میں دنیا کے 26 فیصد لوگ غذائی قلت کا شکار تھے جبکہ 2010ء میں یہ تعداد 13 فیصد رہ گئی۔ تا ہم دوسری جانب دنیا کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کبھی کبھار کامیابی ہوتی تو ہے لیکن دکھائی نہیں دیتی۔ گزشتہ برسوں کے دوران دنیا بھر میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور یقیناً یہ صرف ویلٹ ہنگر ہلفے ہی کی کامیابی نہیں ہے۔‘‘
دنیا بھر میں ابھی بھی بھوک کے شکار افراد کی تعداد 930 ملین بنتی ہے۔ ویلٹ ہنگر ہلفے کی سربراہ ڈیکمان کے مطابق یہ صورتحال کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی مالیاتی بحران، وسائل کی کمی اور آبادی کے تناسب میں نظر آنے والی تبدیلیوں کے باعث اب بھوک کا مسئلہ محض ترقی پذیر ملکوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ اسی لیے ویلٹ ہنگر ہلفے آئندہ برس اس موضوع کو ایک مرتبہ پھر نمایاں حیثیت دینے کی کوشش کرے گی۔
رپورٹ: زابینے رپورگر / امجد علی
ادارت: عدنان اسحاق