نیٹو کی اعلیٰ فوجی کمان میں فرانس کی دوبارہ شمولیت
18 مارچ 2009فرانس نيٹو ميں شامل تو ہے ليکن 43 سال پہلے اس نے نيٹو کی کمان کے ڈھانچے سے عليحدگی اختيار کرلی تھی۔ جس طرح وہ ايک تاريخی فيصلہ تھا، اسی طرح نيٹو کی کمان ميں اب دوبارہ شرکت کا فيصلہ بھی تاريخی ہے ۔ اس طرح فرانس دوبارہ نيٹو ميں مکمل طور سے شامل ہو جائے گا۔
رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فرانسيسی عوام کی اکثريت اس کے حق ميں ہے کہ فرانس اپنا خصوصی کردار ختم کر کے نيٹو کی اعلی کمان ميں دوبارہ شامل ہو جائے۔
فرانس کے صدر سارکوزی يہ سمجھتے ہيں کہ يہ ايک صحيح فيصلہ ہے۔ وہ بين ا لاقوامی سطح پر فرانس کے اثر ميں اضافہ کرنا چاہتے ہيں وہ نيٹو کی کمان ميں فرانس کو اعلیٰ عہدے دلانا چاہتے ہيں۔
’’ہم اپنے فوجی بھيجتے ہيں، ان کی جانيں خطرے ميں ڈالتے ہيں، ليکن ہم اہداف مقرر کرنے اور فيصلے کرنے والے نيٹو کے اداروں ميں شامل نہيں ہيں۔ اس کے خاتمے کا وقت آگيا ہے، کيونکہ فرانس کو فيصلے قبول کرنے کے بجائے ان ميں حصہ لينا چاہئے۔‘‘
سابق فرانسيسی صدر دے ويلپاں کو، جو ڈی گال کے حامی اور صدر سارکوزی کے مخالف ہيں، اس بارے ميں شک ہے۔ انہوں نے کہا کہ نيٹو کی فوجی کمان کے ڈھانچے ميں فرانس کی واپسی کے لئے يہ وقت مناسب نہيں ہے کيونکہ دنيا بدل چکی ہے۔
’’اب مغرب دنيا کا مرکز نہيں ہے۔ اس وقت فرانس کو مغربی ملکوں پر توجہ مرکوز کرنے کی آخر کيا ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم جغرافيائی لحاظ سے مغرب اور نيٹو کا حصہ ہيں، ليکن ہم يہيں تک محدود نہيں بلکہ ہم مشرق اور جنوب سے رابطے کا ملک بھی ہيں۔‘‘
فرانس کی پارليمنٹ کے کئی قدامت پسند اراکين بھی يہی سوچ رکھتے ہيں۔ ان کی تعداد چاليس کے قريب ہے۔ ليکن اس کا امکان نہيں ہے کہ وہ پارليمنٹ ميں صدرسارکوزی کے فيصلے کے خلاف ووٹ ديں گے، کيونکہ اس مسئلے پر حکومت کے ٹوٹ جانے کا خطرہ بہت زيادہ ہے۔ خاص طور سے بائيں بازو کی اپوزيشن سخت تنقيد کررہی ہے اور اسے امريکہ سے رومانس اور فرانس کی خودمختاری ميں کمی قرار دے رہی ہے۔ ليکن فرانس کے صدر سارکوزی نے اس سب کو جھوٹ قرار دے کر رد کرديا ہے۔