1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

نیٹو: سویڈن اور فن لینڈ کی ترکی سے بات چیت کیسی رہی؟

26 مئی 2022

ترکی کا اصرار ہے کہ اگر نورڈک ممالک سیکورٹی سے متعلق اس کے خدشات دور کرنے میں ناکام رہے تو وہ ان کی نیٹو میں شمولیت کا عمل روک دے گا۔ اسی سلسلے میں سویڈن اور فن لینڈ کے حکام نے انقرہ میں ترک حکام سے بات کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4Bst0
Gespräche der Türkei mit Schweden und Finnland über die NATO in Ankara
تصویر: Turkish Presidency/AA/picture alliance

 سویڈن اور فن لینڈ کے وفود 25 مئی بدھ کے روز انقرہ میں تھے تاکہ ان کی نیٹو فوجی اتحاد میں شمولیت سے متعلق وہ ترکی کے اعتراضات کا ازالہ کر سکیں۔

ترکی کا موقف ہے کہ یہ ممالک علیحدگی پسند 'کردستان ورکرز پارٹی' (پی کے کے) اور امریکی حمایت یافتہ شام کی کرد ملیشیا وائی پی جی کے حامی ہیں، اس لیے جب تک وہ سکیورٹی خدشات سے متعلق اپنا موقف واضح نہیں کرتے، اس وقت نیٹو میں ان کی شمولیت کی مخالفت کی جائے گی۔ انقرہ کا دعویٰ ہے کہ یہ گروہ اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

ملاقات کیسی رہی؟

بات چیت کے لیے انقرہ پہنچنے والے وفد کی قیادت سویڈن اور فن لینڈ کے نائب وزرا خارجہ کر رہے تھے، جنہوں نے اپنے ترک ہم منصب سیدات اونال اور صدر طیب ایردوآن کے ترجمان ابراہیم قالن سے صدارتی محل میں ملاقات کی۔

تقریباً پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والی بات چیت کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں قالن نے کہا کہ جہاں تک ہتھیاروں کی برآمدات پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کی بات ہے، تو اس حوالے سے ترکی نے دونوں ممالک کی جانب سے "مثبت نقطہ نظر" کا مشاہدہ کیا ہے۔

تاہم، انہوں نے زور دے کر کہا کہ ترکی اس وقت تک ان دونوں ممالک کی نیٹو میں شمولیت پر رضی نہیں ہو گا جب تک کہ انقرہ کے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے مخصوص اقدامات نہ کیے جائیں۔

ابراہیم قالن نے نیوز کانفرنس میں کہا، "ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر سکیورٹی سے متعلق ترکی کے خدشات کو، ٹھوس اقدامات کے ساتھ، ایک مخصوص مدت میں پورا نہیں کیا جاتا تو یہ عمل آگے نہیں بڑھ سکے گا۔"

یوکرین کے خلاف موجودہ روسی جارحیت کے سبب ان ممالک کو بھی اپنے دفاع کا خوف لاحق ہے اور اسی وجہ سے دونوں ممالک نے نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کی درخواست دی ہے۔ تاہم ان کی شمولیت سے عشروں سے جاری ان کی عسکری غیرجانبداری کی پالیسی ختم ہو جائے گی۔

فن لینڈ  اور روس تقریبا 1,300 کلومیٹر کی طویل سرحد کا اشتراک کرتے ہیں جبکہ اس کا پڑوسی سویڈن یوکرین پر ماسکو کے حملے سے پریشان ہے۔

Ukraine | Türkische Delegation besucht Kiew - Wolodymyr Selenskyj
تصویر: DHA

اس ملاقات کا مقصد کیا تھا؟

بدھ کے روز اسرائیل کا دورہ کرنے والے ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اوغلو نے منگل کو ہی اس سہ رخی اجلاس کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ ترکی اس اجلاس میں ویٹو ختم کرنے کے اپنے مطالبات پیش کرے گا۔

اسٹاک ہوم میں یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد، سویڈن کی وزیر اعظم میگڈالینا اینڈرسن نے کہا کہ ان کا ملک ان دعوؤں پر "وضاحت" کرنا چاہتا ہے جو ترکی کے ساتھ بات چیت کے حوالے سے پھیلتے جا رہے ہیں۔ اینڈرسن نے کہا، "ہم دہشت گرد تنظیموں کو پیسے یا ہتھیار نہیں بھیجتے۔"

ترکی کی مخالفت کی وجہ کیا ہے؟

ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں دوسری بڑی فوج کا حامل ملک ہے اور یہ ملک اتحاد میں توسیع کا ہمیشہ حامی بھی رہا ہے۔ تاہم ترک صدر ایردوآن کا فن لینڈ اور سویڈن کی شمولیت پر یہ اعتراض ہے کہ یہ ممالک کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔

 اس تناظر میں سویڈن اس تنظیم کا ایک بڑا حامی ہے۔ ایردوآن حکومت کا یہ بھی کہنا ہےکہ سویڈن کے ساتھ فن لینڈ بھی امریکہ میں مقیم مبلغ فتح اللہ گُولن کے حامیوں اور انتہا پسند بائیں بازو کی سیاسی جماعت DHKP-C کی بھی حمایت کرتا ہے۔

یہی وہ جوہات ہیں کی جس کے سبب ترکی ان کی مخالفت کر رہا ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے زور دیکر کہا ہے کہ جب تک کہ وہ "دہشت گردوں" کو ترکی کے حوالے نہیں کر دیتے، اس وقت تک، "ہم فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کے لیے قطعی ہاں نہیں کہہ سکتے۔"

کسی بھی نئے ملک کو نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے لیے اتحاد کے سبھی 30 اراکین کی رضامندی لینی ضروری ہوتی ہے۔

اس مشکل کے باوجود اتحاد کے دیگر ارکان نے ان دونوں نارڈک ممالک کی مکمل حمایت کی ہے اور انہیں توقع ہے کہ وہ اس حوالے سے ترکی کے اعتراضات پر قابو پا سکتے ہیں۔ انہیں اس بات کی بھی امید ہے کہ یہ عمل معمول کے 12 ماہ کے بجائے چھ ماہ میں ہی مکمل کیا جا سکتا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)

نیٹو فورسز کی ناروے میں عسکری مشقیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید