1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نفرت جرم سے، مجرم سے نہیں

4 دسمبر 2022

پاکستانی جیلوں میں نامساعد حالات کا شکار اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے قیدیوں خصوصاﹰ خواتین کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اب تاہم چند غیر سرکاری تنظیمیں اس صورتحال میں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہیں۔

https://p.dw.com/p/4KS3j
Pakistan | Todesurteil im Prozess gegen Vergewaltiger
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

قانون کی خلاف ورزی اور جرم کا ارتکاب کسی سے بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی جرم  اس وقت عمر بھر کا پچھتاوا بن جاتاہے جب جرم کا مرتکب شہری اپنی قانونی سزا تو کاٹ لے لیکن معاشرہ اسے تاحیات سزا دیتا رہے۔ پاکستان میں بھی ایسے کئی سزا یافتہ شہری ہیں، جنہیں قانون نے تو سزا کاٹے جانے کے بعد بری کر دیا مگر وہ ناروا معاشرتی سلوک کا سامنا کرتے آج بھی ہر روز اس جرم کی سزا کاٹتے ہیں۔ ایسے شہریوں کا تعلق اگر کسی اقلیتی برادری سے ہو تو پھر اکثریتی سماج کے تنقیدی رویوں سے رہائی بڑی ہی مشکل سے ملتی ہے۔

Pakistan | Todesurteil im Prozess gegen Vergewaltiger
پاکستان کی اکثر جیلوں میں گنجائش سے کئی زیادہ قیدی رکھے گئے ہیںتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

خواتین قیدیوں کی صورت حال میں بہتری

پاکستان کے شہر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا ہونے والی ایک سزا یافتہ مسیحی خاتون شہری سعدیہ بی بی (فرضی نام) نے اپنی اصلی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جیل کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی لیکن اب ویمن ایڈ ٹرسٹ یا WAT  جیسی چند غیر حکومتی تنظیموں (این جی اوز) کی وجہ سے جیلوں میں قید خواتین کو خاصی سہولیات مل چکی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''پہلے تو وہاں ساٹھ ساٹھ ستر ستر خواتین ایک ہی کمرے میں ایسے بند کر دی جاتی تھیں جیسے ڈربے میں مرغیاں۔ تب ان تمام عورتوں کے لیے صرف ایک ہی بیت الخلاء ہوتا تھا، جس میں پانی بھی کم ہی آتا تھا۔‘‘

 اس سابقہ قیدی کا کہنا تھا کہ حیض کے دنوں میں ان خواتین کے پاس استعمال کے لیے حفظان صحت کا کوئی ضروری سامان بھی نہیں ہوتا تھا۔ جس کی وجہ سے انہیں اکثر اوقات یک ہی کپڑا بار بار دھو کر استعمال کرنے پڑتا۔

 اس صورتحال  سے ایسی اکثر خواتین قیدی پیشاب کے وقت جلن، خارش، انفیکشن اور ایسے ہی کئی دیگر طبی مسائل کا شکار بھی ہو جاتی تھیں۔ اس سابقہ قیدی کا کہنا تھا، '' مزید تکلیف کی بات تو یہ کہ تب اول تو انہیں کسی ڈاکٹر کے پاس لے جایا ہی نہیں جاتا تھا۔ لیکن اگر وہ کبھی کسی ایمرجنسی وارڈ میں لے جائی بھی جاتی تھیں، تو اکثر بہت دیر ہو چکی ہوتی تھی۔‘‘

طبقاتی اور مذہبی تعصبات

سعدیہ بی بی نے بتایا کہ جیل میں قید کے دوران ان کے لیے ایک اور خوفناک حقیقت یہ انکشاف بھی تھا کہ کئی قیدیوں سے رشوت لے کر انہیں سگریٹ اور منشیات جیسی ممنوعہ اشیاء بھی فراہم کی جاتی تھیں، ''اور جیل سے باہر لینڈ مافیا سے تعلقات کی حامل قیدی عورتوں کو تو جیل میں بھی وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا تھا۔‘‘ سعدیہ نے اس گفتگو میں یہ سوال بھی کیا کہ اگر کسی فرد سے کوئی جرم سرزد ہو گیا ہو تو کیا وہ عورت یا مرد اس قابل بھی نہیں رہتے کہ انسان کہلا سکیں یا ان کے بنیادی انسانی حقوق کا بھی احترام کیا جائے؟

Pakistan Frauen im Gefängnis
پاکستان میں غیر سرکاری تنظیمیں خواتین قیدیوں کی حالت زار میں بہتری کے لیے کوشاں ہیںتصویر: I. Jabeen

انہوں نے کہا کہ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی قیدی خواتین کے ساتھ بہت برا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، '' ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا یا ان میں گھلنا ملنا تو دور کی بات، ان پر تو نفرت انگیز جملے کسے جاتے ہیں اور بات بات پر طعنے دیے جاتے ہیں۔‘‘

سعدیہ بی بی کے مطابق، ''ہم تو اپنے بچوں کو بڑا ہونے تک یہ بھی نہیں بتاتے کہ مسلمان یا مسیحی ہونا کیا ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے بچوں کو اسکولوں اور معاشرے میں جن رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ انہیں صرف اپنے دوسرے درجے کا شہری ہونے ہی کا احساس دلاتے ہیں۔ ‘‘

پاکستان میں جیلوں کی تعداد اور گنجائش

ویمن ایڈ ٹرسٹ کی ڈائریکٹر شاہینہ خان نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت 99 جیلیں ہیں، جن میں سینٹرل جیلوں، ڈسٹرکٹ جیلوں، سب جیلوں اور عورتوں کی جیلوں کے علاوہ ہاسٹلز بھی شامل ہیں اور اسپیشل جیلیں بھی۔

انہوں نے بتایا کہ ان میں سے بلوچستان میں گیارہ جیلیں ہیں اور وہاں تقریباﹰ دو ہزار کے قریب قیدی موجود ہیں۔ خیبر پختونخوا کی تیئیس جیلوں میں قیدیوں کی تعداد تقریباﹰ آٹھ ہزار بنتی ہے۔ پنجاب میں چالیس جیلیں ہیں اور ان میں اکیس سے بائیس ہزار تک قیدی قید ہیں۔ اسی طرح سندھ کی چھبیس جیلوں میں تقریباﹰ دس ہزار قیدی موجود ہیں اور گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں بھی کئی جیلیں ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی جیلوں میں اس وقت قیدیوں کی کل تعداد اسی ہزار کے قریب بنتی ہے حالانکہ ان میں گنجائش صرف پینتالیس ہزار سے لے کر پچاس ہزار تک قیدیوں کو رکھنے کی ہے۔ ان قیدیوں میں سے تقریباﹰ 97 فیصد مرد ہیں، بچوں کی تعداد 1.5 فیصد بنتی ہے جبکہ خواتین قیدیوں کا تناسب 1.2 فیصد بنتا ہے۔ ان عورتوں میں بھی مذہبی طور پر اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی خواتین قیدیوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔

Pakistan Weihnachtsmesse in der St. Andrew Church in Karachi
ایک عدالتی حکم کے نتیجے میں بائبل کی پڑھائی مکمل کر لینے والی مسیحی اور گیتا کی پڑھائی مکمل کر لینے والی ہندو خواتین کو بھی ان کی سزاؤں میں چھوٹ دی جا سکے گیتصویر: Sabir Mazhar/AA/picture alliance

اقلیتی قیدیوں کے مذہبی تہوار

شاہینہ خان کے مطابق اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید عورتوں کی تعداد 153 بنتی ہے، جن میں سے چھ خواتین کا تعلق ملک کی مسیحی اقلیت سے ہے۔ اس کے علاوہ ایک خاتون کا تعلق ہندو اقلیتی برادری سے بھی ہے، جو عرصہ دراز سے اس جیل میں بند ہے۔ ان سب کو اپنے اپنے مذہبی تہوار منانے کی مکمل آزادی ہے۔

عشروں بعد ابھی حال ہی میں یہ بھی ہوا کہ اگر کوئی عام قیدی خاتون ناظرہ قرآن مکمل کر لے یا دوران قید میڑک یا ایف اے کی سطح کا کوئی تعلیمی امتحان پاس کر لے تو اسے سزا میں کچھ چھوٹ مل جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ رعایت پانچ سال تک کی مدت کی بھی ہو سکتی ہے۔

ماضی میں لیکن یہ سہولت اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی قیدیوں کے لیے نہیں تھی۔ ابھی حال ہی میں ایک عدالتی حکم کے نتیجے میں بائبل کی پڑھائی مکمل کر لینے والی مسیحی اور گیتا کی پڑھائی مکمل کر لینے والی ہندو خواتین کو بھی ان کی سزاؤں میں چھوٹ دی جا سکے گی۔

رویوں میں تبدیلی کا عمل جاری

جہاں تک رویوں کا تعلق ہے تو پاکستانی جیلوں میں قید زیادہ تر خواتین ناخواندہ ہوتی ہیں۔ ان کی دینی اور دنیاوی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اسی لیے ان خواتین کی اکثریت کی اقلیتی برادریوں کی خاتون قیدیوں کے بارے میں سوچ یہ ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے یا کھانے پینے کے بجائے ان کی تذلیل کی جائے۔

ویمن ایڈ ٹرسٹ کی کوشش ہے کہ اس پہلو سے جیلوں میں نفسیاتی ماہرین کو بھیج کر ایسی خاتون قیدیوں کے انفرادی رویوں میں اصلاح لائی جائے۔ ویٹ نامی اس ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے قانونی پہلوؤں پر نفسیاتی حوالے سے کام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

خواتین کے اسی امدادی ٹرسٹ کی طرف سے سوشل ورکر اور ماہر نفسیات فوزیہ خالد بھی اڈیالہ جیل میں بطور ماہر نفسیات کام کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بیس پچیس برس قبل جب ان کی تنظیم نے اڈیالہ جیل میں کام کرنا شروع کیا تھا، تو اس وقت حالات بہت ہی خراب تھے۔ تب جیل میں کوئی طبی سہولیات دستیاب تھیں اور نہ ہی صاف پانی اور دیگر اشیائے ضرورت تک کوئی رسائی ممکن تھی۔