1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نامور ڈرامہ نگار Samuel Beckett کا 100 واں یومِ پیدائش

17 اپریل 2006

آئرلینڈ کے نامور ڈرامہ نگار سیموئیل بیکٹ 13 اپریل سن 1906ء کو شہر ڈبلن میں پیدا ہوئے اور اُن کا انتقال 22 دسمبر سن 1989ء کو فرانسیسی شہر پیرس میں ہوا۔ اُن کے ڈراموں کے کردار ایک ایسے انسان کو سامنے لاتے ہیں، جو اپنے دَور کے تمام تر اُلجھے ہوئے حالات میں اکیلا ہے۔ وہ ایک ایسے زمانے میں سانس لیتا نظر آتا ہے، جو دکھ سے، بد صورتی سے اور مایوسی سے بھرا ہوا ہے اور جس میں انسان تیزی سے ایک ہی منزل یعنی موت کی جانب جاتا دکھائی دیت

https://p.dw.com/p/DYLt
تصویر: dpa

ا ہے۔

جدید دور کا انسان جس طرح سے خود کو گم کر بیٹھا ہے، جس طرح وہ اپنے وجود کا جواز تلاش کرتا پھرتا ہے، اُسے عصر حاضر کے شاید ہی کسی اور ڈرامہ نگار نے اتنی خوبی سے بیان کیا ہو گا، جتنا کہ آئر لینڈ کے نوبیل ادب انعام یافتہ ادیب سیموئیل بیکٹ نے۔ اُس کے کردار اُجاڑ مناظر میں ایسے دکھائی دیتے ہیں، جیسے اپنا رستہ بھول گئے ہوں، کوڑے کے ڈرموں میں ان کا بسیرا ہوتا ہے اور وہ گویا اُلجھے سے رہتے ہیں، اپنے ماضی کے سنہری دنوں کی یادوں میں۔ اپنے مشہور ترین ڈرامے Waiting for Godot کی وجہ سے وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے با اثر ترین ڈرامہ نگاروں میں سے ایک مانے جاتے ہیں۔

سیموئیل بیکٹ کیتھولک آئر لینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں ایک کھاتے پیتے پروٹسٹنٹ گھرانے میں پیدا ہوئے، 13 اپریل سن 1906ءکو۔ تعلیم کے دوران فرانسیسی زبان اور ادب اُن کے خاص مضامین تھے۔ 1928ء میں وہ پہلی بار بیرونِ ملک گئے ، پیرس کی ایک یونیورسٹی میں انگریزی پڑھانے کے لئے۔ وہاں جلد ہی وہ اُس حلقے میں اُٹھنے بیٹھنے لگے، جس کا مرکز و محور آئر لینڈ کے ایک اور نامور ادیب جیمز جوائس تھے۔ 1937ءسے سیموئیل بیکٹ نے پیرس کو مستقل طور پر اپنا مسکن بنا لیا۔

شروع شروع میں اُنہوں نے نثر لکھی لیکن قارئین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ نازی سوشلسٹ دَور میں اُنہوں نے جرمنی کے بھی کئی دَورے کئے اور جرمن زبان بھی سیکھی۔ اُس دَور میں چونکہ نازی سوشلسٹوں نے فرانس کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا تھا، اِس لئے بیکٹ فرانس میں جرمنوں کے خلاف جاری مزاحمتی تحریک میں شامل ہو گئے۔ اِس دوران اُنہیں تین سال تک کا عرصہ جنوبی فرانس میں چھپ کر بھی گذارنا پڑا۔

ساتھ ساتھ وہ اُنہوں نے اپنے ناول WATT پر بھی کام جاری رکھا ، جو طاقت اور حکمرانی ہی کے موضوع پر تھا۔ یہ ناول انگریزی زبان میں تھا لیکن اِس کے بعد سے بیکٹ نے فرانسیسی زبان میں لکھنا شروع کر دیا اور پہلی چیز جو اُنہوں نے لکھی ، وہ تھا اُن کا ڈرامہ Waiting for Godot ، جسے شروع شروع میں کوئی پبلشر ہی نہیں ملا۔ 1953ءمیں یہ ڈرامہ پیرس کے ایک چھوٹے سے تھئیٹر میں اسٹیج کیا گیا اور اتنا مقبول ہوا کہ بہت جلد دُنیا کے بڑے بڑے شہروں میں پیش کیا جانے لگا۔

اِس کے بعد تو اُن کا ایک سے ایک شاہکار ڈرامہ منظرِ عام آتا رہا۔ جلد ہی وہ اسٹیج ڈراموں کے ہدایتکار اور ریڈیو ڈراموں کے خالق کے طور پر بھی سرگرم ہو گئے۔ یہاں تک کہ 1969ءمیں انہیں نوبیل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔

Beckett کی تصنیفات اُس نسل کے تجربات کی عکاسی کرتی ہیں ، جسے عالمی جنگوں ، قتلِ عام کے واقعات اور پہلے ایٹم بم حملے کا تجربہ تھا۔ اُن کے ڈراموں کے کردار ایک ایسے انسان کو سامنے لاتے ہیں، جو اپنے دَور کے تمام تر اُلجھے ہوئے حالات میں اکیلا ہے۔ وہ ایک ایسے زمانے میں سانس لیتا نظر آتا ہے، جو دکھ سے، بد صورتی سے اور مایوسی سے بھرا ہوا ہے اور جس میں انسان تیزی سے ایک ہی منزل یعنی موت کی جانب جاتا دکھائی دیتا ہے۔

انتہا درجے کی یہ نا امیدی بیکٹ کے کرداروں کے المیے میں کہیں کہیں مزاح کا رنگ بھی بھر دیتی ہے۔ بیکٹ کے آخری دَور کے ڈرامے مختصر ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ اُن کے مختصر ترین اسٹیج ڈرامے Breath یعنی سانس کا دورانیہ محض 35 سیکنڈ ہے۔ اُن کی تخلیقی سرگرمیاں مرتے دم تک جاری رہیں۔