1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناروا کا پل، یورپی تاریخ کی علامت

10 مارچ 2010

کئی یورپی ملکوں کی قومی سرحدوں پر متعدد پل ایسے ہیں جن کی علامتی اور عملی مقصدیت و اہمیت ہمیشہ غیر معمولی رہی ہے۔ یہ پل مختلف قوموں کو ایک دوسرے کے قریب بھی لائے اور بے شمار خاندانوں کی تقسیم کا سبب بھی بنے۔

https://p.dw.com/p/MPCO
روس اور یورپی یونین کےمابین ناروا پلتصویر: Wikipedia

انہی میں سے ایک دریائے ناروا پر تعمیر کیا گیا یورپی یونین کی رکن بالٹک کی جمہوریہ ایسٹونیا کو روس کے ساتھ ملانے والے ناروا پل بھی ہے۔ اس پل کا دوسرا کنارہ یوں تو بہت نزدیک ہے مگر وہاں تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ اس لئے کہ دریائے ناروا پر تعمیر کیا گیا یہ پل یورپی یونین کے رکن ملک ایسٹونیا اور وفاق روس کے درمیان ایک ایسی سرحدی گزرگاہ ہے جس کی بہت سخت نگرانی کی جاتی ہے۔

بیٹی روس میں، والدین ایسٹونیا میں

مارینا تادیوشیونا اس سرحدی گزرگاہ کو زیادہ سے زیادہ مرتبہ عبور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس لئے کہ وہ خود تو پل کے پار روسی علاقے میں رہتی ہے مگر اس کے والدین اور بہن ناروا پل کے دوسری طرف اس علاقے میں رہائش پذیر ہیں جو اب ایسٹونیا کا حصہ ہے۔ مارینا کہتی ہے: ’’یوں تو ہمارے درمیان صرف چند کلومیٹر کا فاصلہ ہے لیکن کبھی کبھی مجھے سرحد عبور کر کے دوسری طرف جاتے ہوئےچار گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں۔ میرے لئے یہ بڑا مسئلہ ہے۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ میں صرف ایک کپ چائے پینے اور کچھ گفتگو کے لئے اپنے والدین کے پاس جاؤں۔ لیکن سرحد کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے۔‘‘

02.2010 DW-RADIO/DW-WORLD.DE Europa-Magazine "Brücken-Serie" Narva-Bruecke
دریا کے کنارے سے خزاں میں لی گئی ناروا پل کی ایک تصویر

مارینا تادیوشیونا جب ابھی بچی تھی اور کالعدم سوویت یونین کو ایک ریاست کے طور پر دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت سمجھا جاتا تھا، ان دنوں میں ایسٹونیا کےموجودہ شہرNarva اور روسی شہر Iwangorod کی حیثیت ایک ایسے متحدہ شہر کی سی تھی جو دریا کے دونوں کناروں پر آباد تھا اور جس کے دونوں حصوں کو ناروا پل نے جوڑ رکھا تھا۔ تب ہر کام آسان تھا۔ نہ کوئی بین الاقوامی سرحد، نہ مسلح نگرانی اور نہ ہی آمدورفت کے لئے ویزے کی ضرورت۔

مارینا کی پیدائش ایسٹونیا میں اس دور میں ہوئی تھی جب بالٹک کی یہ جمہوریہ کالعدم سوویت یونین کا حصہ تھی۔ جب وہ بڑی ہوئی تو اس نے اپنے والدین کا گھر چھوڑ دیا۔ لیکن جب وہ لوٹی تو ایسٹونیا ایک آزاد اور خود مختار ریاست بن چکا تھا۔ اب ایک روسی شہری کے طور پر مارینا ایوان گورود میں رہنے پر مجبور ہے جبکہ اس کا باقی ماندہ خاندان ناروا میں رہائش پذیر ہے۔

02.2010 DW-TV European Journal Narva Bridge

مارینا ایک ایسے چھوٹے سے عجائب گھر میں کام کرتی ہے جہاں ناروا پل کے اطراف اور وہاں کی زندگی کی عکاسی کرنے والی تصویروں کی نمائش کی جاتی ہے۔ اسی لئے یہ روسی خاتون گزرے وقتوں کو یاد کر کے کبھی کبھی بڑی اداس بھی ہو جاتی ہے۔ ’’جب ان دونوں شہروں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا گیا تو ایوان گورود اور اس کے شہریوں کو خاص طور پر نقصان پہنچا۔ ہم بہت سی سہولیات سے محروم ہی رہے، مقامی سطح پر پانی کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے سے لے کر پانی کی صفائی کی مقامی تنصیبات تک۔‘‘

پل کے اس پار ناروا یوں تو ایسٹونیا کا ایک شہر ہے مگر وہاں رہنے والے تقریبا سارے ہی باشندے روسی ہیں۔ ان میں مارینا کی بہن Nelly بھی شامل ہے۔ نَیلی کے پاس اب ایسٹونیا کی شہریت ہے اور وہ اس پر بہت خوش ہے۔ اس لئے کہ نَیلی کے بقول اس کے بچوں کے لئے مستقبل کے امکانات یورپی یونین میں کہیں زیادہ اور بہتر ہیں۔ لیکن نَیلی، جو پیشے کے لحاظ سے ایک انجینئر ہے، اپنی بہن مارینا کی کمی بھی شدت سے محسوس کرتی ہے۔ اسے جب بھی وقت ملتا ہے ، وہ ناروا میں Hermannsfeste نامی اس قلعے کی سیر کو ضرور جاتی ہے، جو قرون وسطیٰ میں تعمیر کیا گیا تھا اور جہاں سے ناروا پل کے پار روسی شہر ایوان گورود کا بڑی اچھی طرح نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

نَیلی چُوڈا کووا نے ہیرمان فیسٹے نامی قلعے کے مینار پر کھڑے ہوئے بتایا: ’’وہاں دریا کے دوسرے کنارے میری بہن کا گھر ہے۔ یہاں سے یہ گھر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ میں اور میرے والدین کبھی کبھی یہاں آتے ہیں اور پھر میں اپنی بہن کو آوازیں دینے لگتی ہوں۔ باہر نکل کر تو دیکھو، ہم تمھارے لئے ہاتھ ہلا رہے ہیں!‘‘

ہیرمان فیسٹے کے تاریخی قلعے میں ایک عجائب گھر بھی ہے۔ وہاں مہمانوں کی رہنمائی کرنے والی ماہر تاریخ کا نام Merike Ivask ہے جو سیاحوں کو ناروا کی ہلا دینے والی تاریخ کی جزئیات سے آگاہ کرتی ہیں۔ اس قلعے کی بنیاد تیرھویں صدی میں ڈنمارک سے آ نے والے آباد کاروں نے رکھی تھی۔ پھر جرمن صلیبی جنگجو بھی وہاں پہنچ گئے جن کے بعد سویڈن کے فوجی دستوں نے بھی وہاں کا رخ کیا۔ تب تک اس قلعے کے مقابلے میں دریا کے پار روسی بھی ایوان گورود کے نام سے اپنی قلعہ بند بستی قائم کر چکے تھے۔

EU Erweiterung Estland Tallinn Häuser
ایسٹونیا کا دارالحکومت ٹالین، اندرون شہر کا ایک فضائی منظرتصویر: AP

مَیریکے کہتی ہیں: ’’قلعے تعمیر کرنے میں صلیبی جنگجوؤں اور روسیوں نے ہمیشہ ہی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ جتنا اونچا دریا کے ایک طرف کسی قلعے کا مینار ہوتا، اتنی ہی اونچی دوسری طرف حفاظتی فصیل کھڑی کر دی جاتی۔ ایسا کرتے کرتے ہیرمان فیسٹے نامی قلعے کے مینار کی بلندی 71 میٹر تک پہنچ گئی، جس میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔‘‘

یورپی تاریخ کی علامت

ناروا اور ایوان گورود میں یہ دونوں قلعے اب سیاحوں کے پسندیدہ مقامات ہیں۔ اس علاقے میں اب کوئی جنگ نہیں لڑی جاتی۔ لیکن اس پل کے دونوں طرف پائی جانے والی بد اعتمادی ابھی تک قائم ہے۔ یہ پل یورپ کی مسلسل جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیوں سے عبارت تاریخ کی علامت بن چکا ہے۔ یہاں جرمن، روسی اور سویڈش فوجیں ایک دوسرے کے مد مقابل رہی ہیں، صرف اپنی طاقت میں اضافے کو یقینی بنانے کے لئے۔ بعد کے سوویت دور میں یہ پل دو شہروں کے درمیان معمول کی آمدو رفت کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ آج یہی پل دوبارہ بین الاقوامی سرحد بن چکا ہے اور اس وجہ سے یہاں رہنے والے لوگوں کو پہلے کی طرح بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘

یورپی یونین کی بیرونی سرحد

ایسٹونیا کی یورپی یونین اور یونین کے شینگن زون میں شمولیت کے بعد سے ناروا کا یہ پل یورپی یونین کی بیرونی سرحد بن چکا ہے۔ اسی لئے اس سر‌حدی گزرگاہ کی نگرانی بھی بہت سخت کی جا چکی ہے، تاکہ منظم جرائم، منشیات کی اسمگلنگ اور سفری دستاویزات کی جعلسازی جیسے واقعات پر قابو پایا جا سکے۔ ایسٹونیا اپنے ہاں یورپی یونین کی اس بیرونی سرحد کی نگرانی کو بہتر بنانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی اور سرحدی حفاظتی اہلکاروں کی تعداد میں اضافے کے لئے بہت زیادہ مالی وسائل خرچ کر چکا ہے۔

ناروا میں ایسٹونیا کی سرحدی چوکی کے سربراہ یانُس لُومِسٹے کہتے ہیں: ’’ایک مرتبہ روس سے آنے والی ایک گاڑی ہماری چیک پوسٹ پر آ کر رکی۔ ہمارے اہلکاروں نے اس کی تلاشی لی تو اس میں سے اتنے زیادہ اسمگل شدہ سگریٹ نکلے کہ ان سگریٹوں کی مالیت اس گاڑی کی قیمت سے بھی کہیں زیادہ بنتی تھی۔‘‘

ایک بین الاقوامی سرحد کے طور پر ناروا پل کو پار کرنے کے خواہش مند زیادہ تر ایسے مقامی روسی یا ایسٹونین باشندے ہوتے ہیں، جو دریا کے پار اپنے رشتہ داروں سے ملنا چاہتے ہیں۔ ناروا کی سرحدی چوکی پر مسافروں کی سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال بالعموم کافی تیز رفتاری سے کی جاتی ہے۔ مگر رش اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہاں اکثر لمبی قطاریں دیکھنے میں آتی ہیں۔

Flash-Galerie Revolution in Osteuropa 1989 Bild 09 Estland Lettland Litauen
مشرقی یورپ میں کمیونزم کے خلاف مظاہروں اور سوویت یونین کی شکست و ریخت کے دور میں ٹالین میں بھی پرامن لیکن مسلسل مظاہرے کئے گئے تھےتصویر: AP

مارینا تادیوشیونا اپنے والدین، بہن اور بہن کے بچوں کو ملنے کے لئے اکثر ایسٹونیا جاتی ہے مگر اس کی بہن نَیلی اسے ملنے کے لئے خود بہت ہی کم روس جاتی ہے۔ اس لئے کہ ایسٹونیا کی شہری ہونے کی وجہ سے اسے روسی ویزا درکار ہوتا ہے، جس کے لئے بہت زیادہ فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔ ’’پہلے ہمیں بغیر کسی فیس کے ویزا مل جاتا تھا‍۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب اگر میرا پورا خاندان ایوان گورود جائے ، تو ہر کسی کو ویزا درکار ہو گا۔ مجھے قریب 510 یورو کے برابر فیس ادا کرنا پڑے گی، جو میری پورے مہینے کی تنخواہ بنتی ہے۔‘‘

نئے پل کی تعمیر کا منصوبہ

ناروا اور ایوان گورود میں رہنے والے منقسم خاندانوں کے اگر مارینا اور نَیلی جیسے افراد کی مثال لی جائے، تو ان دونوں بہنوں کی طرح باقی لوگ بھی یہ سیکھ چکے ہیں کہ انہیں اپنے درمیان بین الاقوامی سرحد کے باوجود کس طرح زندہ رہنا ہے۔ اس لئے کہ ناروا کا یہ پل بہت سے شہریوں کی خاندانی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

ناروا اور ایوان گورود کے درمیان دریا پر مستقبل میں ایک نیا پل تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ مارینا اور نَیلی کی خواہش ہے کہ اگر ناروا کے ایک پل نے ان کے خاندان کوتقسیم کر دیا تو دوسرا پل انہیں پھر سے ایک دوسرے کے قریب لانے کا سبب بننا چاہیے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: عاطف بلوچ