1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی دہلی میں ایشیائی سیکیورٹی کانفرنس

افتخار گیلانی، نئی دہلی3 فروری 2009

نئی دہلی میں دو روزہ ایشیائی سیکیورٹی کانفر س جاری ہے۔ اس میں دنیا بھر کے ساٹھ سے زائد ماہرین حصہ لے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/GmZf
بھارتی اور پاکستانی فوجی بارڈر پر پریڈ کے دورانتصویر: AP

کانفرنس میں یوں تو پورے خطے کی سلامتی کی صورت حال پر غور و خوض کیا جارہا ہے لیکن پاکستان اور افغانستان کا معاملہ چھایا رہا۔

روم میں نیٹو ڈیفنس کالج اور ایک برطانوی یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر راڈ تھارمٹن نے افغانستان کے حوالے سے کہا کہ سابقہ برسوں کے مقابلے میں پچھلے سال افغانستان کی صورت حال کہیں زیادہ خراب ہوگئی ہے۔ ملک کے 72 فیصد علاقوں پر طالبان کا عمل دخل ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو کی ماتحتی میں فوج کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود طالبان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت تشویش کی بات ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نئی اور جامع اسٹریٹجی کی اشد ضرورت ہے، جس میں پاکستانی فورسز کا تعاون ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف مالی امداد اور ترقیاتی کاموں سے ہی وہاں کامیابی ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ سوویت یونین نے کہیں زیادہ رقم خرچ کی تھی اس کے باوجود اسے افغانستان چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے پاکستانی سرحدوں اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کی وجہ سے حالات مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔

اس کانفرنس میں ممبئی حملوں کے بعد خطے میں صورت حال اور بھارت کے ریسپانس پر بھی خاصی بحث ہو ئی اور شرکاء کے درمیان بھارت کے رویے کے حوالے سے خاصا اختلاف رہا۔دفاعی اور اسٹریٹجک امور کے ماہر ایئرکموڈور پرشانت دکشت نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے بھارت کے رویے کو درست قرار دیا۔ انہوں نے کہا ’’اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ چٹکی میں مسئلے کا حل نکل جائے گا تو یہ سوچنا غلط ہے اور ملک فوج لے کر ایک دوسرے پر چڑھ نہیں جاتے، کوئی راستہ نکالا جاتا ہے ۔ یہ موضوع ملکوں کے رشتوں کا ہے اور عالمی امن کا ہے‘‘۔ لیکن دفاعی امور کے ماہر میجر جنرل اشوک مہتہ کا خیال ہے کہ پاکستان کی باتوں پر یقین نہیں کیا جاسکتا اور بھارت کو جوابی کارروائی کے طریقوں پر غور کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا ’’ پاکستان کی طرف سے ایسے دہشت گردانہ حملے تو ہوتے ہی رہیں گے۔ ہمیں چوٹ لگانی چاہئے۔ ہماری حکومت کو اس سلسلے میں فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان پریہ حملے اس طرح کئے جانے چاہئیں کہ ان کا براہ راست الزام بھارت پر نہ آئے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ پاکستان کے استحکام کا بھارت کی سلامتی پر براہ راست اثرپڑتا ہے اس لئے کوئی پالیسی اپناتے وقت کافی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ ایئر کموڈورپرشانت دکشت نے امریکی صدر اوباما کے اس خیال سے بھی اختلاف کیا کہ پاکستان کو دی جانے والی امدادی رقم پر روک لگانا کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ’’ اگر تعلیم، صحت اور دیگر ترقیاتی کاموں کے لئے مدد دی جائے تو ممکن ہے کہ پاکستان کے رویئے میں تبدیلی آسکے‘‘۔

اس کانفرنس میں بھارت میں اسپیس ٹیکنالوجی کے حوالے پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کو بھی اب خلائی ٹیکنالوجی کے ملٹری استعمال کے لئے تیار رہنا چاہئےکیوں کہ جاپان نے بھی جون 2008 میں ایک اسپیس قانون کو منظوری دی ہے جس سے خلاء کے پر امن استعمال کی تشریح بدل گئی ہے۔

بھارتی وزیر دفاع اے کے انٹونی نے کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ براعظم ایشیا میں بہت سارے ایسے مسائل اور علاقائی تنازعات ہیں جن کا استحصال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بچنے کی ایک راہ یہ ہے کہ حالات کو جو ں کا توں برقرار رکھتے ہوئے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے زمانہء امن کے دوران جو کچھ حاصل کیا تھا وہ سب ممبئی حملوں کے بعد اس نے کھو دیا۔