1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'میں اپنے لیے کافی ہوں‘، پاکستانی ٹرانسجینڈر ارہا پریشے

صائمہ حیدر
25 اگست 2018

پاکستانی ٹرانسجینڈر خاتون ارہا پریشے کا ماننا ہے کہ ٹرانسجینڈر افراد کو اگر معاشرے میں اپنی شناخت بنانی ہے تو سب سے پہلے خود اس شناخت کو قبول کرنا ہو گا۔ پریشے کہتی ہیں،’’آپ کو اپنا ساتھ خود دینا ہو گا۔‘‘

https://p.dw.com/p/33jvB
Transsexuelle ingenierurin Irha Parishe aus Pakistan
تصویر: Privat

ارہا پریشے پاکستان کی معروف یونیورسٹی ’نَسٹ‘ سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔ ارہا نے قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں ٹرانسجینڈر افراد کے حوالے سے رائج کئی ایک ’بد صورت‘ اسٹیریو ٹائپ خیالات کو بدلنا اپنے لیے چیلنج کے طور پر قبول کر رکھا ہے۔ ارہا پریشے ٹرانس جینڈر برادری کے حوالے سے عوامی آگاہی کے لیے پاکستان میں انسانی حقوق کے نیشنل کمیشن کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

ڈی ڈبلیو کو دیے ایک انٹرویو میں ارہا نے بطور ٹرانس وومن خود کو پیش آنے والے تجربات اور چیلنجز پر بات چیت کی۔

ڈی ڈبلیو: ایک ٹرانسجینڈر کے طور پر سب سے بڑے چیلنجز آپ کے لیے کیا ہیں؟

ارہا پریشے: چیلنجز تو بے شمار ہیں۔ سب سے بڑی مشکل تو معاشرے کی جانب سے امتیازی سلوک ہے۔ مجھے یہ احساس اسکول کے دنوں ہی سے ہو گیا تھا جب میری ٹیچرز کلاس کے دوسروں بچوں کی نسبت مجھ پر بہت کم توجہ دیتی تھیں۔ لیکن سب سے بڑا چیلنج خود میرے خاندان کی جانب سے مخالفت کا تھا۔ جب آپ کی مدد کرنے والے سب سے قریبی لوگ ہی منہ پھیر لیں تو بہت ڈیپریشن ہوتا ہے۔ معاشرے کی جانب سے امتیازی سلوک کے علاوہ اگر آپ ٹرانسجینڈر کلچر کا حصہ بننے کے لیے تیار نہ ہوں تو یہ کمیونٹی بھی بری طرح سے آپ کے خلاف ہو جاتی ہے۔

ڈی ڈبلیو: کیا پاکستانی سماج آپ کے ساتھ مناسب اور موزوں سلوک کرتا ہے؟

ارہا پریشے:جب تک معاشرے کے افراد کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ میں ایک ٹرانسجینڈر خاتون ہوں، تب تک معاملات درست رہتے ہیں لیکن پتہ چلنے کے بعد یا تو لوگوں کا رویہ ہمدردانہ ہو جاتا ہے یا پھر مردوں کی جانب سے نامناسب الفاظ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پتہ نہی ایسا کیوں سمجھا جاتا ہے کہ ایک ٹرانس خاتون لازمی طور پر ’سیکس ورکر‘ ہی ہو گی۔

ڈی ڈبلیو: والدین عموماﹰ اپنے ٹرانسجینڈر بچوں کو قبول کرنے سے انکار کیوں کر دیتے ہیں؟

ارہا پریشے: لوگ اکثر اس خوف سے ایسے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں کہ معاشرہ انہیں مسترد کر دے گا۔ اور اگر قبول کر بھی لیں تو اکثر اوقات اس حوالے سے ناشائستہ سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر میں کسی مخنث بچے کی پیدائش کو پاکستانی معاشرے رائج بعض توہمات کے سبب والدین کے کسی گناہ یا کسی کی بد دعا کا ثمر سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے ایسے بچوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو: ’ایکسپلورنگ فیوچر فاؤنڈیشن‘ کیا ہے اور آپ اسے کیسے سپورٹ کر رہی ہیں؟

ارہا پریشے: ای ایف ایف ٹرانسجینڈر کمیونٹی کے معاشی استحکام کے لیے کام کرنے وال ایک تنظیم ہے۔ اس تنظیم نے ٹرانسجینڈر افراد کے لیے پاکستان میں پہلا اسکول قائم کیا ہے جہاں وہ مختلف ہنر سیکھتے ہیں۔ ہم صرف ناچ گانا کر کے پیسہ کمانے کے لیے تو پیدا نہیں ہوئے۔ میں ای ایف ایف کے لیے فنڈز جمع کرنے اور اسے دیگر غیر سرکاری تنظیموں سے متعارف کرانے میں اس کی معاونت کرتی ہوں۔

ڈی ڈبلیو: ٹرانس کمیونٹی کے وہ بنیادی مسائل کیا ہیں جن پر بات کی جانی چاہیے؟

ارہا پریشے: ٹرانسجینڈر افراد کا بنیادی مسئلہ اُن کی اپی شناخت نہ ہونا ہے۔ زیادہ تر ٹرانس افراد غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ اُنہیں نہیں معلوم کہ وہ ذرائع کونسے ہیں جو انہیں اُن کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم کر سکیں۔ وہ اپی شناخت کے حوالے سے الجھن کا شکار رہتے ہیں جس سے اُن میں خود اعتمادی ختم ہوتی جاتی ہے۔ ٹرانسجینڈر ہونے کا تعلق انسان کی محض جسمانی ساخت سے نہیں بلکہ انسانی نفسیات سے بھی ہے۔    

صائمہ حیدر/ عاطف توقیر