1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میک کرسٹل: شہری ہلاکتیں ’مشترک‘ کے لئے دھچکہ

15 فروری 2010

افغان صوبے ہلمند میں طالبان جنگجوؤں کا مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں نادِ علی اور مرجاہ میں اتحادی اورافغان افواج کی طرف سے گزشتہ ہفتے کو شروع کئے جانے والے آپریشن ’مشترک‘ میں کامیابی کے متضاد دعوے سامنے آرہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/M1pf
تصویر: AP

افغان فوج اس آپریشن کو ایک بڑی کامیابی قراردے رہی ہے جب کہ طالبان جنگجو اس لشکر کشی کو اتحادی افواج کی ہزیمت سےتعبیر کررہے ہیں۔

گزشتہ کچھ ماہ میں طالبان جنگجوؤں نے اپنی عسکری کارروائیاں تیز کی ہیں، جن میں طالبان مخالف اتحادی افواج کا جانی نقصان بھی ہوا۔ اس تیزی نے اتحادی اورافغان افواج کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ طالبان کے خلاف بھر پور کارروائیاں کریں۔ ِاسی مقصد کے لئے گزشتہ ہفتے کو آپریشن ’مشترک‘ شروع کیا گیا تھا۔

سینئرافغان جنرل امان اللہ پٹیانی نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اس آپریشن میں کامیابی ہوئی ہے اور طالبان کا قلعہ سمجھے جانے والے صوبے ہلمند کے علاقوں نادِعلی اور مرجاہ کو افغان اور اتحادی افواج نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان علاقے سے بھاگ گئے ہیں۔ تاہم دیسی طور پر تیار کیا جانے والا دھماکہ خیز مواد اب بھی اتحادی افواج کے لئے خطرہ ہے۔ افغانستان میں نیٹو افواج کی کئی ہلاکتیں انہی بموں کے پھٹنے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔

Karte Afghanistan mit Provinz Helmand UPDATE: mit der Stadt Mardscha Marjah Marjeh
افغانستان کے نقشے میں ہلمند کا صوبہ اور جھڑپوں کا مرکز مرجاہتصویر: DW

کابل میں افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان جنرل محمد ظاہرعظیمی کا کہنا ہے کہ آپریشن ختم ہونے کی طرف جا رہا ہے اور اب حکومت مرجاہ اور نادِ علی کے علاقوں کو دھماکہ خیز مواد سے محفوظ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

کچھ افغان شہری بھی جنرل ظاہر کے اس دعوے کے تائید کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ ایک شہری لال گُل کا کہنا ہے:’’آج صبح جب فوجیوں نے میرے گھر پر تلاشی کے لئے دستک دی، میں نے دیکھا کہ افغان نیشنل آرمی آگے تھی اور امریکی ان کے پیچھے۔ میرے خیال میں آپریشن کی اچھی طرح منصوبہ بندی کی گئی اور یہ صحیح سمت میں چل رہا ہے۔‘‘

تاہم امریکی میرین کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مرجاہ کے کچھ علاقوں میں لڑائی اب بھی جاری ہے اوراتحادی افواج کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس اعتراف کو ِان اطلاعات کے بعد مزید تقو یت ملتی ہے، جن میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ طالبان جنگجو مختلف مقامات سے اتحادی افواج پر حملے کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پیر کو شمالی مرجاہ کے ایک علاقے میں طالبان کی طرف سے اتحادی افواج کی ایک گاڑی پر حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں جانی نقصانات کی اطلاع نہیں ملی۔ تاہم حملے کے بعد اتحادی افواج کی پیش قدمی کی رفتار میں کمی آگئی ہے۔

مبصرین کی رائے میں یہ آپریشن ’مشترک‘ امریکی صدر باراک اوباما کی اُس حکمت ِعملی کا امتحان ہے، جس کے ذریعے وہ طالبان کو شکست دے کر اِس آٹھ سالہ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ امریکی فوجی اِس آپریشن میں 15,000نیٹو اور افغان فوج کی قیادت کر رہے ہیں، جومرجاہ کے علاقے کو طالبان جنگجوؤں کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں۔

General Stanley Mc Chrystal
اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹلتصویر: picture-alliance/dpa

اِس آپریشن میں اب تک بارہ معصوم افغان شہری اور دو نیٹو کے فوجی مارے جا چکے ہیں جبکہ آپریشن کی ابتدا سے لے کر اب تک نیٹو کے مزید پانچ فوجی بھی جنوبی افغانستان کے مختلف علاقوں میں ہلاک کئے جا چکے ہیں۔ مجموعی طور پر ہلاک ہونے والے سات فوجیوں میں چار امریکی اور دو برطانوی شامل ہیں۔

افغان اور اتحادی افواج اس آپریشن کی کامیابی چاہتے ہیں تاکہ جنگ سے تباہ شدہ ملک میں اداروں کو مضبوط کیا جا سکے اور انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنا کر عوام کے لئے سہولیات پیدا کی جا سکیں۔

لیکن تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اِس آپریشن کی کامیابی کو سب سے بڑا خطرہ معصوم شہریوں کی ہلاکتوں سے ہے۔ اگرچہ نیٹو فوج نے بارہ افغان شہریوں کی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا اور جنرل میک کرسٹل نے ان ہلاکتوں پر معافی بھی مانگی ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ معافی نہیں بلکہ اس طرح کی ہلاکتوں کی مکمل روک تھام ہے تاکہ افغان لوگوں کے دلوں اور دماغوں کو جیتنے کی مغربی دنیا کی پالیسی کامیابی سے ہمکنار ہوسکے۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید