1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار کی فوج الیکشن کیوں کروا رہی ہے؟

29 مارچ 2023

میانمار میں دو برس قبل ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے ملک بھر میں شورش اور تنازعات کے باوجود حکمران فوج انتخابات کے انعقاد کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4PSFG
Myanmar | Min Aung Hlaing
تصویر: The Military True News Information Team via AP/picture alliance

میانمار کی جنتا ملک میں ہر حال میں انتخابات منعقد کرانے کی تیاریوں میں مصروف ہے جبکہ یہ ملک فوجی بغاوت کے بعد سے ہنگامہ آرائی کا شکار ہے اور میانمار کی تمام  بڑی جماعتیں الیکشن میں حصہ لینے پر یا تو آمادہ نہیں یا حصہ لے نہیں سکتیں۔

میانمار  میں گزشتہ چھ دہائیوں میں سے ملکی فوج پانچ دہائیوں تک حکومت میں رہی ہے۔ گزشتہ بغاوت سے قبل دس سال تک سیاسی معاملات میں فوج اس حد تک مداخلت کرتی رہی کہ آخر کار میانمار کی یہی فوج ایک نیم سویلین سیاسی نظام میں تبدیل ہو گئی۔ اب اس ملک میں فوج ایک منتخب حکومت کے ساتھ سیاسی طاقت کا حصہ بن چکی ہے۔

یہ نظام دراصل فوج نے اپنی اس حکمت عملی کے تحت بنایا تھا، جس کا مقصد ملکی سیاسی نظام میں اپنے قدم جمانے کی اجازت حاصل کرنا تھا۔ اس طرح ایک اہم سیاسی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے فوج اپنے مفادات کا تحفظ  بھی کرنا چاہتی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ فوج کبھی منتخب سیاستدانوں کے رحم و کرم پر نہ رہے۔

Myanmar Protest Polizei
ملکی فوج پانچ دہائیوں تک حکومت میں رہی تصویر: Getty Images

فوجی بغاوت کے بعد الیکشن کیوں؟

فوج کے لیے یہ ایک کامیابی تھی۔ کم از کم آمرانہ حکمرانی کی دہائیوں سے پہلے کی پابندیاں اور معاشی زوال کے مقابلے میں۔ میانمار  کی جمہوریت اور سویلین حکمرانی کے ساتھ مختصر مڈبھیڑ اس ریاست کے لیے بے مثال اصلاحات، مغربی سرمایہ کاری اور اقتصادی آزادی کی وجہ بنی۔ فروری 2021ء کی بغاوت نے تاہم بہت سی مبہم چیزوں کو واضح کر دیا تھا۔

اپوزیشن کو کیا ہوا؟

77 سالہ سیاسی لیڈر آنگ سان سوچی 33 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ متعدد الزامات کا سامنا کرنے والے ان کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ سوچی کے سیاسی مستقبل کو تباہ کرنے کے لیے کیا گیا۔ یوں ان کی جماعت این ایل ڈی کے درجنوں عہدیدار بھی اب یا تو جیل میں ہیں یا بھاگ گئے۔ میانمار کی جنتا نے این ایل ڈی اور 39 دیگر جماعتوں کو تحلیل کر دیا ہے۔

Philippinen |  Myanmar Demokratie Protest
میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد جمہوریت پسندوں کی جدوجہد تصویر: Edd Castro/Pacific Press/picture alliance

یہ پارٹیاں منگل کے دن تک انتخابی رجسٹریشن کی ڈیڈ لائن پوری کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ ان میں سے بہت سی جماعتیں این ایل ڈی کی طرح اب یا تو الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہتیں یا پھر حصہ لے ہی نہیں سکتیں۔

الیکشن کون جیتے گا؟

انتخابات کے لیے ہنوز کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی لیکن این ایل ڈی کے تحلیل کیے جانے کے بعد اور 63 رجسٹرڈ جماعتوں میں سے زیادہ تر کے صرف علاقائی قانون سازوں کے لیے الیکشن لڑنے کی وجہ سے یہ بات واضح ہے کہ فوج ہی کی ایک پراکسی، یونین سالیڈیریٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (USDP) کی آئندہ قومی سطح پر کامیابی تقریباً یقینی ہے۔

ک م / م م (روئٹرز)