1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا راکھین کا مسلم علاقہ جہادیوں کا نیا گڑھ بن سکتا ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
13 ستمبر 2017

دنیا کے کئی مسلم ممالک کے طرح پاکستان میں بھی روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کے نام پر مذہبی، جہادی اور فرقہ پرست تنظیمیں سرگرم ہو چکی ہیں۔ خدشہ ہے کہ میانمار کی ریاست راکھین کامسلم علاقہ جہادیوں کے لیے پر کشش بن جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2jtrd
جنوب مشرقی ایشیا میں ابو سیاف گروپ کو ایک بڑا مسلم عسکریت پسند گروہ مانا جاتا ہےتصویر: Getty Images/AFP/R.Gacad

ذرائع ابلاغ کے مطابق آج بدھ تیرہ ستمبر کو دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ نے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور فلپائن کے ’مجاہدینن‘ پر زور دیا کہ وہ میانمار کے مسلمانوں کی مدد کریں۔ ایک بیان میں اس دہشت گرد تنظیم نے کہا، ’’جس طرح کا سفاکانہ سلوک برمی مسلمانوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے، اس کی سزا دی جائے گی۔ ہم بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور فلپائن کے مجاہدین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ برما کے مسلمانوں کی مدد کے لیے روانہ ہوں اور اس کے لیے ٹریننگ سمیت ساری تیاریاں کریں تاکہ ظلم سے لڑا جا سکے۔‘‘

میانمار اپنا مسئلہ خود حل کرے، شیخ حسینہ واجد

’روہنگیا اقلیت کی نسل کشی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے‘

روہنگیا کی اپنے گھروں کو خود جلانے کی تصاویر جعلی نکلیں

انڈونیشیا، ملائشیا، بنگلہ دیش، یمن اور پاکستان کی بھی جہادی اور مذہبی تنظیموں نے اسی طرح کی اپیلیں کی ہیں۔ پاکستان میں کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر نے ’القلم‘ نامی جہادی میگزین میں لکھا ہے کہ ’برما امن کے لیے ترسے گا‘۔

Ata Ullah
راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کی عسکریت پسند تنظیم کا مبینہ سربراہ عطااللہتصویر: Reuters

لیکن پاکستان میں کئی تجزیہ نگار وں کے خیال میں روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو خطے کی مجموعی صورت حال کے پیش نظر دیکھنا جانا چاہیے۔ کئی مبصرین مذہبی اور جہادی تنظیموں پر منافقت کا الزام بھی لگا رہے ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا نے روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے اور اس ظلم کی مذمت کی جانا چاہیے۔ لیکن جہادی اور فرقہ پرست تنظیمیں اس مسئلے کی آڑ میں سرگرم ہو گئی ہیں کیونکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی یہی چاہتی ہے۔ شام میں شکست کے بعد داعش کے جنگجوؤں کو ایک اور ٹھکانہ مل جائے۔ اس کے علاوہ القاعدہ اور دوسری جہادی تنظیمیں بھی وہاں قدم جمانے کی کوشش کریں گی۔ لیکن اگر چین نے میانمار حکومت کی حمایت کی تو پاکستان میں یہ بخار کم ہوجائے گا۔‘‘

Rohingya Krise in Bangladesch
میانمار کی ریاست راکھین سے اب تک لاکھوں روہنگیا مسلمان اپنی جانیں بچانے کے لیے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیںتصویر: DW/M.M. Rahman

احسن رضا نے مذہبی تنظیموں پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان میں ہزارہ برادری کے لوگوں کا قتل ہو رہا ہے۔ افغانستان، شام اور عراق میں ہزاروں انسان داعش کی بربریت کا نشانہ بنے۔ فلسطینیوں پر بھی کئی دہائیوں سے ظلم ہو رہے ہیں۔ یمن میں معصوم شہریوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ لیکن وہاں کوئی بھی جہادی گروپ جانے کو تیار نہیں۔‘‘

روہنگیا بحران: ’نسل کشی کی کتابی مثال‘ ہے، اقوام متحدہ

بدھا ہوتے تو روہنگیا کی مدد کر رہے ہوتے، دلائی لامہ

پاکستان میں لاکھوں روہنگیا میانمار کے حالات پر تشویش کا شکار

کئی مبصرین اس مسئلے کو خطے میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کے خیال میں میانمار میں جہادی تنظیموں کی موجودگی سے امریکا اور مغرب کو فائدہ ہوگا۔ ’’یہ عجیب اتفاق ہے کہ یہ جہادی تنظیمیں جہاں جہاں جاتی ہیں، پیچھے پیچھے امریکا آجاتا ہے۔ پہلے انہوں نے افغانستان میں ان کے آنے کا راستہ ہموار کیا۔ پھر انہوں نے شام میں اس کی مداخلت کا جواز بنایا۔ انہوں نے لیبیا کو برباد کر کے وہاں پر مغربی مداخلت کا راستہ ہموار کیا۔ اب اگر میانمار میں گڑ بڑ ہوتی ہے، تو اس کا سب سے زیادہ نقصان چین کو ہو گا۔ میانمار، ملائشیا اور انڈونیشیا میں چین کی اچھی خاصی سرمایہ کاری ہے۔ اگر میانمار میں گڑ بڑ ہوتی ہے، تو اس کا اثر ملائشیا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش پر بھی پڑے گا، جہاں پہلے ہی انتہا پسند تنظیمیں موجود ہیں۔ ایسی صورت میں چین چاروں طرف سے گھر جائے گا اور اگر میانمارمیں کبھی امریکی مداخلت ہوئی، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایک طرف امریکا افغانستان میں ہے اور دوسری طرف اس بدھ مت کی اکثریت والے ملک میں، یعنی چین دونوں طرف سے گھرا ہوا ہو گا۔‘‘

روہنگیا افراد کے لیے پاکستان میں احتجاجی ریلیاں

ڈاکٹر امان میمن کا کہنا تھا کہ میانمار میں حالیہ برسوں میں معاشی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ ’’اس ملک میں تین بلین ڈالر سے زیادہ ایف ڈی آئی صرف اسی برس آئی ہے۔ شرح نمو سات فیصد سے زیادہ ہے لیکن اگر موجودہ صورت حال پر قابو نہ پایا گیا، تو ابو سیاف گروپ سے لے کر القاعدہ اور داعش سے لے کر جیشِ محمد تک، سبھی تنظیمیں وہاں اپنے قدم جمانے کی کوشش کرین گی۔‘‘

روہنگیا باغیوں کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان

میانمار: مزید کئی روہنگیا دیہات نذر آتش، پاکستان کا احتجاج

میانمار بنگلہ دیش سے ملحق سرحد پر بارودی سرنگیں بچھا رہا ہے

نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارہ برائے عالمی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین نے روہنگیا مسلم اقلیت کو درپیش بحران کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اگر اس بحران پر سفارتی سطح پر جلد قابو نہ پایا گیا، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ انتہا پسند تنظیموں کے لیے یہ ایک پر کشش جگہ بن جائے گی۔ میرے خیال میں اس صورت حال کو آسیان کے ممالک پریشانی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ اگر صورت حال ایسی ہی رہی، تو اس سے خطے کے ممالک کے مابین تلخیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔‘‘