1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں خطاب، پوپ فرانسس نے روہنگیا کا حوالہ نہ دیا

عاطف بلوچ، روئٹرز
28 نومبر 2017

پوپ فرانسس نے میانمار میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ یہ ملک میں خانہ جنگی اور تشدد کی وجہ سے تقسیم کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم اس دوران انہوں نے روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف جاری حکومتی کریک ڈاؤن کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔

https://p.dw.com/p/2oO3G
Myanmar Papst Franziskus in Naypyitaw
تصویر: Reuters/M. Rossi

خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ اٹھائیس نومبر بروز منگل پوپ فرانسس نے میانمار میں ایک اجتماع سے خطاب میں کہا ہے کہ تشدد سے بچنے کی خاطر مذہبی اختلافات کو دور کرتے ہوئے قومی مصالحت کی راہ اختیار کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کی خاطر قیام امن کی کوششیں کرنا ہوں گی اور اںصاف کا بول بالا کرنا ہو گا۔

پوپ فرانسِس میانمار کے اولین دورے پر

’روہنگیا مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل آئندہ دو ماہ میں شروع کر دیا جائے گا‘، بنگلہ دیش

بدھ قوم پرستی کی آگ میں جلتا میانمار اور پوپ کا دورہ

بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کے مصائب

کیتھولک مسیحیوں کے رہنما پوپ فرانسس کا مزید کہنا تھا، ’’مذہبی اختلافات کسی تقسیم یا بداعتمادی کی وجہ نہیں بننا چاہییں بلکہ یہ تو ایسی طاقت ہے، جس کی وجہ سے اتحاد، درگزر، برداشت اور قوم کی ترقی کو تقویت دی جانا چاہیے۔‘‘ منگل اٹھائیس نومبر کو آنگ سان سوچی سے ملاقات کے بعد اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پوپ فرانسس نے کہا کہ میانمار میں قیام امن کی کوششوں کو تیز کر دینا چاہیے۔

تاہم اس خطاب میں پوپ فرانس نے روہنگیا مسلم اقلیت کا حوالہ نہیں دیا، جس کے خلاف جاری حکومتی کریک ڈاؤن کی وجہ سے میانمار میں ایک بحران کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ رواں برس اگست میں شروع ہونے والے اس کریک ڈاؤن کی وجہ سے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلم افراد بنگلہ دیش فرار ہو چکے ہیں۔

انسانی حقوق کے اداروں نے زور دیا تھا کہ پوپ فرانسس کو روہنگیا اقلیت کا حوالہ دینا چاہیے تاکہ ان کا کیس زیادہ بہتر طریقے سے نمایاں ہو سکے۔ تاہم  میانمار میں کیتھولک چرچ نے مشورہ دیا تھا کہ اگر پوپ فرانسس اس ملک میں اس طرح کا کوئی براہ راست بیان دیں گے تو مقامی کیتھولک مسیحیوں کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ساتھ امریکا نے بھی میانمار میں روہنگیا کمیونٹی کے خلاف جاری اس کریک ڈاؤن کو ’نسل کشی‘ قرار دے دیا ہے۔ میانمار کی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اس بحران کے خاتمے کی خاطر فوری اقدامات اٹھائے۔ میانمار اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کے مابین ان مہاجرین کی واپسی کے ایک معاہدے کے باوجود ایسی اطلاعات ہیں کہ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش ہجرت پر مجبور ہیں۔

اس تناظر میں پوپ فرانسس کے اس دورے کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کے اس دورے سے قبل روہنگیا مہاجرین نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ ان کے مصائب عالمی منظر نامے پر زیادہ بہتر طریقے سے اجاگر ہو سکیں گے۔ دوسری طرف ایک اور پیشرفت میں آکسفورڈ سٹی کونسل نے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو دیا گیا ’فریڈم آف دی سٹی‘ کا ایوارڈ واپس لے لیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری حکومتی کریک ڈاؤن پر سوچی کی خاموشی کی وجہ سے یہ اعزاز واپس لیا گیا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی سابق طالبہ سوچی کو امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔ سماجی حلقوں کے مبصرین کا مطالبہ ہے کہ ان سے یہ انعام بھی واپس لے لینا چاہیے۔