میانمار، تاریخی امن کانفرنس کا اختتام
3 ستمبر 2016دارالحکومت نِپ یادیو میں چار روز تک جاری رہنے والی اس کانفرنس کو قومی مفاہمت کی طرف ایک اور قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کانفرنس میں شریک ایک سیاسی تجزیہ کار من سین کا کہنا تھا کہ فی الوقت اس کانفرنس کا مقصد مختلف گروہوں کے درمیان بہتر تعلقات کی تشکیل تھا جو حاصل کر لیا گیا ہے۔ من سین نے مزید کہا، ’’تاہم ابھی امن کے قیام کے لیے ہمیں طویل سفر طے کرنا ہے۔‘‘ کانفرنس میں شریک مندوبین نے زیادہ تر وقت تقاریر کرتے اور بیانات دیتے گزارا جن میں فوج، نسل پرست مسلح گروپوں اور حکومت کے قریب سولہ سو نمائندے شامل تھے۔
میانمار دنیا کی طویل ترین خانہ جنگیوں میں سے ایک کا شکار رہا ہے۔ اس کثیرالنسل ملک میں امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ماضی میں کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ بین الاقوامی برادری نے میانمار میں قیام امن کے لیے اس اجلاس سے بہت امید وابستہ کر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے کانفرنس میں اپنی افتتاحی تقریر میں اسے تاریخی قرار دیا تھا۔ اس سلسلے کا اگلا اجلاس آئندہ برس مارچ میں بلایا جائے گا۔
سن 1948 میں آزادی کے بعد سے میانمار نسلی تنازعات کی زد میں رہا ہے۔ ان میں سے متعدد مسلح نسلی گروہ زیادہ خود مختاری کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ ان گروہوں کا کہنا ہے کہ انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے اور زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس دوران میانمار میں کئی عشروں تک قائم رہنے والی فوجی حکومت کو قصور وار قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ ماضی میں ملکی سکیورٹی فورسز ان گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کرچکی ہیں۔
آنگ سان سوچی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد عہد کیا تھا کہ وہ ملکی تاریخ کے اس درد ناک باب کے خاتمے کے لیے بھرپور کوشش کریں گی۔